بچوں کے ذہنی امراض

676

ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل میں فرق:
ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل کے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ عموماً لوگ اس فرق سے ناواقف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ متاثرہ بچے/بچی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ علاج میں بھی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل میں بنیادی فرق حسبِ ذیل ہے:
٭ ذہنی امراض پیدائشی و موروثی ہوتے ہیں۔
٭ نفسیاتی مسائل حالات، ماحول، رویوں اور طرزِ زندگی سے جنم لیتے/ کبھی کبھی خودساختہ بھی ہوتے/ہوسکتے ہیں۔
٭ ذہنی امراض عموماً ناقابل علاج ہوتے ہیں۔
٭ نفسیاتی مسائل قابل علاج ہوتے/ہوسکتے ہیں۔
٭ ذہنی معذوری، ذہنی پسماندگی، ذہنی کمزوری، مرگی، ڈسلکزیا/ Dyslexia وغیرہ ذہنی امراض ہیں۔
٭ ذہنی دبائو، ٹینشن، فرسٹریشن، ڈپریشن، فوبیاز، کھانے پینے، سونے جاگنے وغیرہ کی بے قاعدگیاں نفسیاتی مسائل میں شمار ہوتی ہیں۔
٭ ذہنی مرض سے متاثرہ بچہ/بچی کی عموماً ساری زندگی اس مرض کے ساتھ گزرتی ہے۔
٭ نفسیاتی مسئلے سے متاثرہ بچہ/بچی مختلف یا طویل علاج کے بعد عموماً اپنے مسئلے سے نجات حاصل کرلیتا/ کرسکتا ہے۔
٭ متاثرہ بچہ/بچی لکھنے پڑھنے یا کوئی ہنر سیکھنے کی صلاحیت سے بھی عموماً محروم رہتا ہے۔
٭ متاثرہ بچہ/بچی لکھ پڑھ سکتا اور کوئی بھی ہنر سیکھ کر من پسند زندگی بسر کرسکتا ہے۔
٭ متاثرہ بچہ/بچی عموماً زندگی بھر دوسروں کے تعاون اور مدد کا محتاج رہتا ہے۔
٭ متاثرہ بچہ/بچی خودمختار، پُراعتماد و ذمہ دار ہوسکتا/بن سکتا ہے۔
ذہنی و نفسیاتی امراض و مسائل سے متعلق عمومی معاشرتی منفی سوچ اور رویے:
ہمارے ہاں آج بھی ذہنی و نفسیاتی امراض و مسائل سے متعلق منفی سوچ اور رویے پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر ترقی یافتہ ممالک اور مہذب معاشروں کے برعکس ہمارے ہاں پیدائش سے 16 سال تک کی عمر کے بچوں میں ذہنی و نفسیاتی امراض ومسائل کی شرح بہت زیادہ ہے۔
لوگ کیا کہیں گے؟
ہمارے ہاں سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس خیال سے والدین اپنے بچے/ بچی کے مرض/مسئلے سے متعلق کسی سے کوئی مشورہ/راہنمائی/ مدد نہیں لیتے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بات کرتے ہی لوگوں کا رویہ بچے اور ان کے ساتھ تبدیل ہو جائیگا۔ اس منفی رویے اور سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
پاگلوں کے اسپتال/ پاگلوں کے ڈاکٹر
مختلف اسپتالوں میں ذہنی و نفسیاتی امراض و مسائل کے شعبہ جات اور ماہرین نفسیات و ماہرین ذہنی امراض (سائیکاٹرسٹ، سائیکالوجسٹ) سے متعلق یہ سوچ/خیال/رائے بھی رکھی جاتی ہے کہ یہ پاگلوں کے اسپتال یا پاگلوں کے ڈاکٹر ہوتے ہیں، یعنی ان کے پاس جانے کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آپ کا بچہ/بچی پاگل ہے۔
ایسی ہرگز کوئی بات نہیں ہے اسپتالوں میں قائم ذہنی و نفسیاتی امراض و مسائل کے شعبہ جات بالکل اسی طرح کام کرتے ہیں جیسے دیگر مختلف جسمانی عارضوں کے لیے مخصوص شعبہ جات۔ ماہرین نفسیات بھی محض پاگلوں کے ڈاکٹر نہیں ہوتے، بلکہ یہ تو بچے/بچی کے ہر طرح کے مسئلے/مرض کو سلجھا کر اسے نارمل زندگی گزارنے کے قابل بناتے/بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
رشتے/شادی میں مسئلہ
کسی ذہنی و نفسیاتی مرض/مسئلے میں مبتلانوعمر بچی کو محض اس خیال سے معالج کے پاس نہ لے جانا، گھر/کمرے میں بند کرکے رکھنا تاکہ کسی کو پتا نہ چلے۔ ورنہ رشتہ/شادی ہونے میں مسئلہ ہوگا۔ اس سوچ کے حامل والدین نہیں جانتے کہ بروقت مناسب علاج نہ ہونے کی صورت میں بچی کا رشتہ/شادی ویسے بھی نہیں ہوگی کیونکہ ہر گزرتا دن مرض/ مسئلے کو پیچیدہ بناتا ہے۔ متاثرہ بچی کو کمرے میں بند رکھنا بھی مسئلے کا حل نہیں اسے مزید اذیت پہنچانے کے مترادف ہے۔ ضروری ہے کہ کسی مرض/مسئلے کی علامات ظاہر ہوتے ہی ماہر و مستند معالج سے رجوع کرکے باقاعدہ علاج کروایا جائے تاکہ بچی کی آئندہ زندگی کسی پیچیدگی کا شکار نہ ہو۔
کوئی دیکھ نہ لے؟
متاثرہ بچے/ بچی کے والدین کا محض اس خیال سے کسی اسپتال/ماہر نفسیات کے پاس نہ جانا کہ وہاں کوئی جان پہچان کا بندہ، رشتہ دار یا دوست نہ دیکھ لے۔
محض اس خیال سے اپنے بچے /بچی کو بروقت اور باقاعدہ علاج سے محروم رکھنا ہرگز کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ اپنے بچے/بچی کی بہتری اور اسے تکلیف سے نجات دلانے کا والدین نہیں سوچیں گے تو بھلا کون سوچے گا؟ یہ والدین کا فرض اور بچے/ بچی کا حق ہے… دوسروں کو بھی چاہیے کہ کسی کے ذاتی معاملات میں غیر ضروری مداخلت سے گریز کریں۔
متاثرہ بچے/بچی کو قابل نفرت، باعث شرمندگی سمجھنا
ذہنی و نفسیاتی مرض/ مسئلے کے شکار بچے/بچی کو قابل نفرت یا باعث شرمندگی سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔ ایسے والدین جانتے نہیں کہ کہیں نہ کہیں بچے/بچی کی اس حالت و کیفیت کے ذمہ دار وہ خود بھی ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ خود اپنی سوچ اور رویے کو بدلیں تاکہ دوسروں کے سامنے اپنے بچے/ بچی کو باعزت مقام دلوا سکیں۔ ایک طرف اگر والدین بچوں پر ترس کھانے، نفرت کرنے، نازیبا القابات سے پکارنے، تحقیر و تذلیل کرنے کے بجائے شفقت و محبت سے کام لیں، دیگر صحت مند بچوں کی طرح انہیں بھی اپنی اولاد سمجھیں کیونکہ یہ بھی ان کی ذات کا ایک مضبوط حوالہ ہیں اور رہیں گے تو دوسری طرف عمومی معاشرتی سوچ اور رویے میں بھی مثبت تبدیلی ناگزیر ہے تاکہ متاثرہ بچے اور ان کے والدین بھی کھل کر سانس لے سکیں۔