انسان کی زندگی میں تصور ذات یا self image کی بڑی اہمیت ہے۔ انسان کتے کا پلا ہوتا ہے مگر اس کا تصور ذات یہ ہوتا ہے کہ وہ ببر شیر ہے۔ ایسے شاعر جو چار آنے میں آٹھ مل جاتے ہیں خود کو میر، غالب اور اقبال سمجھتے ہیں۔ سیاست میں یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست تو ہے ہی Image کا کھیل۔ مہاتما گاندھی ہندوؤں کے بڑے رہنما تھے اور ہندو انہیں ’’باپو‘‘ کہتے تھے۔ مگر گاندھی کے لیے باپو کا امیج کافی نہ تھا۔ چناں چہ انہیں ’’مہاتما‘‘ یعنی ’’عظیم روح‘‘ قرار دیا گیا۔ آپ کہیں گے اس میں گاندھی کا کیا قصور؟ قصور تو انہیں مہاتما کہنے والوں کا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ گاندھی میں اتنا انکسار اور اتنی جرأت تو ہونی ہی چاہیے تھی کہ وہ صاف کہہ دیتے کہ Father of the Nation تو ہوں مگر مہاتما ہرگز نہیں ہوں۔ مگر انہوں نے کبھی اپنے مہاتما ہونے کی تردید نہیں کی۔ جنرل ایوب ایک اوسط درجے کے جنرل اور رہنما تھے، چناں چہ ان کے لیے اتنا کافی ہونا چاہیے تھا کہ وہ بری فوج کے سربراہ اور صدر پاکستان ہیں مگر انہوں نے خود کو فیلڈ مارشل کہلوا کر دم لیا۔ بھٹو صاحب نے اپنے لیے ’’قائد ایشیا‘‘ کا ’’نشہ‘‘ ایجاد کرایا۔ جنرل ضیا الحق مرد مومن، مردِ حق بن کر اُبھرے۔ الطاف حسین کی تصاویر کروٹن کے پتوں اور مسجد کے فرش پر ’’ظاہر‘‘ ہونا شروع ہوگئی تھیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کم از کم ولی اور زیادہ سے زیادہ نبوت کے منصب پر فائز ہونے کا اعلان کرنے ہی والے ہیں مگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا۔ تاہم اس سلسلے میں شریف خاندان اور عمران خان نے تو حد ہی کردی ہے۔
میاں نواز شریف نے خود کو ’’نظریاتی شخصیت‘‘ قرار دیا ہے حالاں کہ وہ ’’نظرآتی‘‘ شخصیت سے زیادہ کچھ نہیں۔ قومی، ملی اور امت گیر سطح پر نظریاتی شخصیت قائد اعظم، اقبال اور مولانا مودودی تھے۔ میاں نواز شریف ان شخصیات کے گھر پر چوکیداری کے لیے بھی منتخب نہ ہوسکتے۔ مگر خیر میاں صاحب نے تو خود کو نظریاتی کہا تو قوم روحانی اور ذہنی اذیت سے بلبلا کر خاموش ہوگئی۔ لیکن میاں نواز شریف کی دختر نیک اختر مریم نواز نے پنجاب میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے خود پسندی اور خود پرستی بلکہ شریف پرستی کے دائرے میں تمام حدود کو پامال کر ڈالا۔ مریم نے پنجاب میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا ان ہی کی ٹوٹی پھوٹی زبان میں ملاحظہ کیجیے۔ انہوں نے فرمایا۔
’’تو آج صبح میرے دل کو بہت تکلیف پہنچی، میرے دل کو بہت دکھ پہنچا، مگر پھر مجھے کیا یاد آیا؟ جس سے میرے دل کو بہت تسلی ہوگئی۔ جو اسلامی تاریخ میں، جو اسلامی کتابوں میں، جو اسلام کی ہم نے تعلیمات حاصل کی ہیں۔ اس میں مجھے وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آگیا جب ہمارے نبی، پیارے نبی حضرت محمدؐ جب خانہ کعبہ میں نماز ادا کرتے تھے، تو جب وہ سجدے میں جاتے تھے کفار کیا کرتے تھے؟ کفار گھناؤنی حرکت کرتے تھے تو حضرت فاطمہ زہرہ جو ہمارے پیارے نبی کی صاحب زادی تھیں اور روتی جاتی تھیں۔ فتح ہوئی نہ پھر؟ کیوں کہ والد حق پہ تھا۔ والد سچے راستے پہ تھا تو نواز شریف جو آپ کا لیڈر ہے، میرا لیڈر ہے، میرا باپ ہے، وہ بھی حق کے راستے پر ہے، اور جو حق کے راستے پر ہوتا ہے اس کے راستے میں مشکلات آتی ہیں۔ ان مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہیے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ مریم نواز نے اپنی اس تقریر میں کیا کہا ہے؟ اب سوال کا جواب راز نہیں۔ مریم نواز نے نواز شریف کا موازنہ رسول اکرمؐ سے کیا ہے، خود کو سیدہ فاطمہؓ کے مقام پر فائز کیا ہے اور نواز شریف کے حریف مکے کے کفار اور مشرکین ہیں۔ رہی نواز شریف کی جدوجہد تو وہ رسول اکرمؐ کی جدوجہد کی طرح ’’حق‘‘ کی جدوجہد ہے۔ اللہ اکبر۔ کتے اور خنزیر خود کو ببر شیر سمجھنے لگے۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے مگر مریم نواز اپنے والد کو رسول اکرمؐ کے ساتھ لاکھڑا کرے اور خود کو سیدہ فاطمہؓ کی جگہ ایستادہ کرلے یہ بات ضلالت اور شیطنیت سے بھی آگے کی چیز ہے۔ نواز شریف اور ان کا پورا خاندان طرح طرح کی بدعنوانیوں میں ڈوبا ہوا ہے، دنیا نیوز کے کالم نگار ہارون الرشید کے بقول شریف خاندان کے اراکین بھی ویسے ہی اسکینڈل کا حصہ ہیں جیسے اسکینڈلز ریحام خان عمران خان سے منسوب کررہی ہیں۔ نواز شریف کی جدوجہد کرسی کے لیے ہے، مال بنانے کے لیے ہے، پاکستان کو بھارت کی کالونی بنانے کے لیے ہے۔ امریکا کے جوتے چاٹنے کے لیے ہے، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان کی جرأت کا ’’راز‘‘ یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ طاقت ور قوتوں کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ مگر ان کی بیٹی کہتی ہے کہ نواز شریف کی جدوجہد رسول اکرمؐ کی جدوجہد کی طرح ’’حق کی جدوجہد‘‘ ہے۔ یہ توہین اسلام ہے، توہین رسالت ہے، توہین سیدہ فاطمہؓ ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ توہین کا طریقہ ’’نیا‘‘ ہے۔ مریم نواز کی تقریر کا یہ حصہ یوٹیوب پر موجود ہے۔ آپ اپنے اسمارٹ فون پر انگریزی میں صرف یہ فقرہ لکھ دیجیے۔
Maryam Nawaz Comparing Her Father With Muhhammad (SAW) Naooz Billah and herslf With Fatima (R.A)
خیر مریم نواز کو جو کرنا تھا انہوں نے کرلیا مگر سوال یہ ہے کہ اس توہین پر معاشرے نے کیا کیا؟ اس معاشرے نے جو خود کو اسلامی کہتا ہے، جو رسول اکرمؐ اور اہل بیت کی محبت کا دم بھرتا ہے؟ جو جرنیلوں کو خلائی مخلوق قرار دینے پر بھڑک اُٹھتا ہے اور اس سلسلے میں سیکڑوں کالم لکھ ڈالتا ہے اور سیکڑوں ٹاک شوز کر ڈالتا ہے۔
مریم نواز کا قصہ آپ نے ملاحظہ کرلیا۔ بدقسمتی سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جس طرح عمران خان شریف خاندان سے سیاسی سطح پر اُلجھے ہوئے ہیں اس طرح انہوں نے توہین اسلام اور توہین رسالت کے دائرے میں بھی شریف خاندان سے آگے نکلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس کی ایک مثال جیو نیوز کے حامد میر کو دیا گیا ان کا تازہ ترین انٹرویو ہے۔ حامد میر نے جب عمران خان سے کہا کہ آپ کا ایک نظریہ تھا مگر اب آپ Electables کی سیاست کررہے ہیں تو عمران خان نے فرمایا۔
’’دیکھیں مہاتیر محمد ملائیشیا میں آیا، پاور میں Political class تو وہی تھی۔ کوئی نئی Political class تو اس نے Import نہیں کی۔ وہ ملائیشیا کی Political class تھی۔ فرق کیا ہوا کہ مہاتیر محمد ایک لیڈر آیا اور اس نے ملائیشیا کو Change کردیا۔ ہم یہ غلط فہمی میں ہیں کہ کسی طرح یہ Electables کی وجہ سے یا یہ جو Electables ایک پارٹی میں کبھی ادھر آتے ہیں یا زیادہ تر Main لوگ ان کو ہم بار بار (کسی) پارٹی کا حصہ دیکھتے ہیں اس سے ہم اس غلط فہمی میں ہیں کہ اس ملک میں ہم آگے نہیں بڑھے یا ملک کے حالات بگڑ گئے ہیں تو ان کی وجہ سے ہوتا ہے۔ Political class کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ یہ لیڈرز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ آپ مجھے دنیا کا کوئی ملک بتادیں جو ملک اپنے آپ کو تبدیل کرتا ہے اس کے اوپر ایک لیڈر بیٹھتا ہے سب سے بڑی مثال میں لوگوں کو اپنے نبیؐ کی دیتا ہوں کہ وہی مکے کے لوگ تھے، وہی عرب تھے، ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی، دو Empires تھے، ایک Persian اور ایک Roman امپائر۔ اور ایک لیڈر ان کو اٹھا کر کہاں سے کہاں لے گیا۔ تو مکہ کے وہی قریش جو ان پر ظلم کرتے تھے، ان کو ہی فتح مکہ کے بعد اپنے ساتھ ملا کے، ان میں سے بڑے بڑے لیڈر بن گئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لیڈر شپ ملک کو Change کرتی ہے، یعنی ہجوم ایک قوم کو ٹھیک نہیں کرتا بلکہ ایک لیڈر آکے قوم کی اخلاقیات اٹھا دیتا ہے، ادارے مضبوط کرتا ہے، ایک کلچر سے آتا ہے، وہ کرپشن کو Tolerate نہیں کرتا‘‘۔
عمران خان اس سے پہلے بھی ایک بار خود کو رسول اکرمؐ سے Compare کرچکے ہیں، اب انہوں نے دوسری بار یہ رکیک حرکت کی ہے۔ بلاشبہ رسول اکرمؐ ہمارے لیے ہر دائرے میں بہترین نمونہ ہیں۔ کوئی مسلمان آپؐ کی سیرت کی طرف نہ دیکھے تو کس کی سیرت کی طرف دیکھے؟ مگر سیرت طیبہؐ کی طرف دیکھنے میں اور یہ کہنے میں زمین آسمان کا فرق ہے کہ رسول اکرمؐ بھی ایک لیڈر تھے اور میں بھی ایک لیڈر ہوں۔ آپؐ بھی ایک Change لائے اور میں بھی ایک Change لانے والا ہوں۔ کوئی عمران خان سے پوچھے کہ تمہارے کردار کا کون سا پہلو رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ سے مشابہ ہے؟ کیا معاذ اللہ رسول اکرمؐ بھی تمہارے طرح Electables کی سیاست کررہے تھے؟ کیا تمہارے Elactables حضرت ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ کی طرح ہیں؟ رسول اکرمؐ نے حق کی بالادستی کی جدوجہد شروع کی تو اپنے اصحاب کو اپنی سیرت کے سانچے میں ڈھالا۔ عمران خان بتائیں کہ انہوں نے کتنے Electables کو اپنی سیرت کے سانچے میں ڈھالا؟ نئے کاٹھ کباڑ کو تو رہنے ہی دیں جو لوگ عمران خان کے ساتھ عرصے سے چل رہے ہیں ان کے عیوب پر بات نہ ہی کی جائے تو اچھا ہے۔ البتہ عمران خان کے منہ پر مارنے کے لیے ایک چھوٹی سی مثال حاضر ہے۔ مظہر برلاس روزنامہ جنگ کے کالم نگار اور عمران خان کے صحافتی عاشقوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا۔
’’اب آتے ہیں تحریک انصاف کی طرف جہاں مخصوص نشستوں پر نامزدگیوں نے صورتِ حال کو انتہائی پیچیدہ بنادیا ہے۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع اس صورت حال کی ذمے داری دو خواتین پر ڈالتے ہیں، ان خواتین کا نام منزہ حسن اور عالیہ حمزہ ہے۔ منزہ 2013ء کے الیکشن سے قبل کینیڈا میں تھیں، وہ آئیں اور قومی اسمبلی کی رکن بن گئیں۔ اس وقت سلونی بخاری، عائلہ ملک اور مہناز رفیع سمیت کئی سینئر خواتین کا حق مارا گیا۔ منزہ حسن کی قومی اسمبلی میں کارکردگی زیرو رہی مگر انہوں نے اپنے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی کو مطمئن رکھا۔
اسی لیے حالیہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں بھی دونوں نے ایک روز اکیلے افطاری کی۔ یہ افطاری اسلام آباد کے ایک ماڈرن ریسٹورنٹ میں تھی جہاں منزہ حسن پہلے سے موجود تھیں۔ یہاں پتا نہیں کیا منصوبہ بندی ہوئی کہ یہ منصوبہ بندی پی ٹی آئی کی تمام خواتین کے راستے کی دیوار بن گئی‘‘۔
(روزنامہ جنگ۔ 15 جون 2018ء)
شاہ محمود قریشی عمران کے ساتھ عرصے سے ہیں۔ خیر سے وہ ایک درگاہ کے ’’سجادہ نشین‘‘ بھی ہیں۔ ان کا یہ ’’عالم‘‘ ہے تو چند روز پہلے تحریک انصاف میں آنے والے Electables کا کیا حال ہوگا؟۔ ویسے دیکھا جائے تو شاہ محمود بھی وہی کچھ کرتے نظر آرہے ہیں جو ان کا رہنما کرتا رہا ہے۔ عمران خان اس وقت ملک کے سب سے بڑے ’’سیاسی بھکاری‘‘ اور سب سے بڑے ’’سیاسی کباڑیے‘‘ ہیں۔ مگر ان کا ’’تصور ذات‘‘ یہ ہے کہ وہ اس طرح تبدیلی لائیں گے جس طرح رسول اکرمؐ لائے تھے۔ عمران کا خبط عظمت لینن، ماؤ اور قائد اعظم کے ساتھ ملانے سے بھی تسکین پاسکتا تھا مگر عصبیت میں جہل اور رکاکت بھری ہو تو کوئی کیا کرے۔