’’اپنے تو اپنے ہوتے ہیں‘‘

350

خلائی مخلوق ایک حقیقت ہے اور دنیا کا کوئی بھی ملک اس مخلوق کی موجودگی سے خالی نہیں۔ یہ تو شہباز شریف نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے پاکستان میں ایسی کسی بھی مخلوق کی موجودگی اور اس موجودگی پر یقین رکھنے سے انکار کرتے ہوئے جنات کی موجودگی کو تسلیم کیا۔ وگرنہ شہباز شریف بھی جانتے ہیں کہ خلائی مخلوق ہر ملک ومعاشرے کی حقیقت ہے۔ اب تو یہ مخلوق ملکوں تک محدود نہیں رہی ایک عالمی خلائی مخلوق بھی وجود میں آچکی ہے۔ جس طرح دنیا دہشت گردی کا ڈھول پیٹنے کے باجود ابھی تک اچھے اور برے دہشت گردوں کے تضادات میں دھنسی اور پھنسی ہوئی ہے اسی طرح اچھی اور بری خلائی مخلوق کا تضاد بھی موجود ہے۔ جو خلائی مخلوق کسی شخص، جماعت یا گروہ کے لیے مہربان چھاؤں کی طرح سایہ فگن رہتی ہے اچھی ہوتی ہے اور جو خلائی مخلوق اس سائے سے جلتی ہے وہ بری کہلاتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت اچھی اور بری خلائی مخلوق کی تفریق جاری ہے۔ عالمی خلائی مخلوق حالات کو اپنے ڈھب پر چلانے پر مصر ہے۔ اس کے اپنے پسندیدہ چہرے مہرے اور نعرے ہیں۔ اس کے اپنے مقاصد اور مفادات ہیں۔ اس لیے وہ اپنے پسندیدہ اور چنیدہ کرداروں کی ہر ممکن طریقے سے مدد کر تی ہے۔ جب تک ملکی اور عالمی خلائی مخلوق میں مفادات کا ٹکراؤ اور نظریات کی یکسانیت موجود رہی تو انتخابات میں اور ناموں اور جماعتوں پر اتفاق ہوتا رہا اور جب سے خلائی مخلوقات کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہوا ہے، مقاصد اور نظریات میں تضاد پیدا ہو گیا ہے اس وقت سے ایک کھینچا تاتی جا رہی ہے۔ دونوں کی پسند وناپسند کے پیمانے اور میعار بدلنے سے چہروں اور مہروں کی پسند وناپسند بھی تبدیل ہو چکی ہے۔ پاکستان کے موجودہ انتخاب میں یہ زورا زوری صاف دکھائی دے رہی ہے۔
چودھری نثار علی خان کو جیپ کا انتخابی نشان کیا ملا کہ جیپ کی وابستگی اور معنویت پر نت نئے تبصرے سننے کو مل رہے ہیں۔ جیپ پہلی دفعہ کسی امیدوار کا انتخابی نشان نہیں بنی۔ البتہ جیپ کے نشان کے حامل امیدوار اور اس نشان نے پہلے کبھی اتنی اہمیت حاصل نہیں کی۔ یہ چودھری نثار علی خان کی شخصیت کا کمال ہے کہ انہیں جیپ کا انتخابی نشان ملتے ہی ملک بھر سے کئی امیدواروں نے جیپ کا نشان لینے میں دلچسپی ظاہر کی اور یوں جیپ کا نشان تبصروں اور تجزیوں کا مرکز بن گیا ہے۔ چودھری نثار علی خان مسلم لیگ ن میں مفاہمت اور اعتدال کی سیاست کی علامت سمجھے جاتے تھے انہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ کی طرف تیزی سے لڑھکتی ہوئی مسلم لیگ ن میں ملکی اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ سمجھا جاتا رہا۔ نمائندہ نہ سہی دونوں کے درمیان ایک پل ضرور جانا جاتا تھا۔ اب یہ پُل ٹوٹ گرا تو اسی لیے شہباز شریف کو خود سامنے آکر کئی نئے فارمولے پیش کرنا پڑ رہے ہیں۔ جن میں سب سے اہم ایک نئے عمرانی معاہدے کی تشکیل ہے جس میں خارجہ اور دفاعی پالیسی میں فوج کی مشاورت کا کوئی باقاعدہ نظام قائم ہو۔ غالباً شہباز شریف نیشنل سیکورٹی کونسل کے قیام کی بات کر رہے ہیں وہی کونسل جس کا نام لینے پر ایک فوجی سربراہ جنرل جہانگیر کرامت کو پہلے عہدے اور بعد ازاں ملک ہی چھوڑنا پڑا تھا اسی ناخوش گوار شکست وریخت سے جنرل پرویز مشرف کا ظہور ہوا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ملکی تاریخ کا حصہ ہے۔
چودھری نثار خان کو جیپ کا نشان ملا تو لوگوں نے فوجی جیپوں کو سوشل میڈیا پر پھیلانا شروع کر دیا۔ یہ وہ طبقہ ہے جو ہر قیمت پر چودھری نثار کی جیپ کو پریڈ گراونڈ کی جیپ ثابت کرنا چاہتے ہیں حالاں کہ یہ عام پرائیویٹ جیپ بھی ہو سکتی ہے۔ سیاحتی اور پہاڑی علاقوں میں بوجھ اور سواریاں اُٹھا کر مٹک مٹک کر اونچے نیچے ٹیلوں پر رینگنے والی جیپ بھی ہو سکتی ہے۔ اس کا کیجیے کہ خود مسلم لیگ ن چودھری نثار علی خان کی جیپ کو جی ایچ کیو کی جیپ قرار دینے پر مُصر ہے۔ پاکستان جیسے تیزی سے ڈی پولیٹسائز ہوتے ہوئے معاشرے میں اس تاثر کے نقصان بجائے فائدہ ہی ہوتا ہے اور اسی سے لوگوں کو ہوا کا رخ جاننے میں مدد ملتی ہے۔ چودھری نثار علی خان کی جیپ افسانہ بنتے بنتے راکٹ بن گئی ہے۔ ایسا راکٹ جو خلا میں بھیجا جاتا ہے اور ظاہر ہے وہاں اس کا کام خلائی مخلوق سے متعلق ہوتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی فضاء میں خلائی مخلوق کی اصطلاح کے موجد میاں نوازشریف ہیں اور ان کے خیال میں ریاستی ادارے خلائی مخلوق بن کر ان کی سیاسی قطع وبرید میں لگے رہتے ہیں۔ خلائی مخلوق اور راکٹ کا تعلق تو سمجھ آتا ہے مگر خلائی مخلوق اور جیپ کا تعلق تلاش کرنا آسان نہیں کیوں کہ جیپ زمین پر چلتی اور زمینی مخلوق کی سواری ہے۔ اب مسلم لیگ ن کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کا ایک آپشن بھی زیر بحث آنے لگا ہے۔
ملتان میں ایک امیدوار رانا اقبال سراج کی پٹائی اور اس میں حساس اداروں کا کردار اور بعدازاں محکمہ زراعت کے اہلکاروں کی بات اور میاں نوازشریف کی طرف سے مسلسل اس موقف کا اظہار کہ تشدد کا نشانہ بنانے والے حساس ادارے کے اہل کار تھے۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ پاکستان کو کہاں اور کس رخ پر جانا ہے یہ انتخابات اس کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ ہر قیمت پر ان انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی رہی ہے اور ملکی اسٹیبلشمنٹ اس کوشش کو ناکام بنانے کی تگ ودو کر رہی ہے۔ یوں اگر ان انتخابات میں ایک ملکی خلائی مخلوق سرگرم ہے تو وہیں ایک عالمی خلائی مخلوق بھی اس عمل سے وابستہ ہے۔ جس کو جو مخلوق فائدہ پہنچا رہی ہے وہی اچھی ہے اور جس مخلوق سے کسی فریق کو نقصان پہنچتا ہے وہ بری ہے۔ اس تفریق اور تقسیم میں کسی کے درست اور غلط ہونے کا فیصلہ تو صادر نہیں کیا جا سکتا مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ: ’’اپنے تو پھر اپنے ہوتے ہیں‘‘۔