تیرہویں آئینی ترمیم کا مناقشہ

284

آزادکشمیر کے آئین میں تیرہویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ترمیم کے نقائص اور فوائد کی ایک نئی بحث چل نکلی ہے۔ ترمیم کی منظوری کے بعد اب یہ بحث پارلیمانی جماعتوں کے درمیان پوری قوت اور شدت سے جاری ہے کہ ترمیم سے آزادکشمیر نے آئینی اور انتظامی اختیار کی شاہراہ پر چند قدم آگے بڑھائے ہیں یا یہ ترقی معکوس کا شکار ہو کر رہ گیا ہے؟۔ ایک طرف حکومت اس ترمیم کو آزادکشمیر کے سیاسی اور آئینی سفر کا سنگ میل قرار دے رہی ہے اور آزادکشمیر کے صوبوں سے زیادہ بااختیار بن جانے کا مژدہ سنا رہی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن کی دو پارلیمانی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم کانفرنس مسلسل اس موقف کا اظہار کر رہی ہیں کہ اس ترمیم کے ذریعے حکومت نے اپنے ہاتھ پاؤں کاٹ کر وفاق کے حوالے کر دیے ہیں اور یہ کہ آزادکشمیر کو پچاس برس پیچھے پہنچا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ اسلام آباد میں ایک بااثر حلقہ بھی ترمیم کی منظوری سے خوش نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے ان تحفظات پر وزیر اعظم راجا فاروق حیدر خان نے شدید ردعمل کا اظہارکیا ہے اور کہا ہے کہ مفاد پرست جماعتیں اس ترمیم سے خوش نہیں۔ اس ترمیم سے ایک حکومت، ایک اسمبلی اور ایک اکاونٹ کی روایت قائم ہو گئی ہے۔
تیرہویں آئینی ترمیم بنیادی طور پر آزادکشمیر کو بااختیار بنانے کی غرض ہی سے کی گئی تھی۔ اس کا مقصد مظفر آباد اور اسلام آباد کے تعلقات میں توازن پیدا کرنا تھا اور یہ سوچ راتوں رات پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ سوچ بہت سست روی ہی سے سہی مگر آگے کی راہ پارہی تھی۔ اس حوالے سے آئینی ترامیم کا ایک جامع مسودہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جسے حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے تیار کیا تھا وزارت امور کشمیر کی الماریوں میں موجود تھا۔ کئی غیر حکومتی تنظیمیں بھی اختیارات میں توازن کے حوالے سے ممکنہ راستوں اور طریقوں پر مسلسل کام کر رہی تھیں۔ اس دوران ہی حکومت نے ایک نیا مسودہ تیار کر کے ڈوبتی ہوئی وفاقی حکومت اور شاہد خاقان عباسی جیسے کمزور وزیر اعظم سے منظوری حاصل کرلی اور یوں کشمیر کونسل کے خود سر سانڈ کو سینگوں سے پکڑنے کی کوشش کی گئی۔ ظاہر ہے یہ سانڈ کے لیے سرخ رومال بن گئی اور کشمیر کونسل کی طاقتور اور بااثر مافیا نے ہر چیز کو روندنے کا فیصلہ کر لیا۔ کشمیر کونسل کے ملازمین کی فوج کا تعلق ملک کے بااثر طبقات اور بااثر لوگوں اور برادریوں سے ہے۔ جنہیں ساری زندگی کشمیریوں کے ٹیکسوں کے پیسے پر عیاشیاں کرنے کا نشہ ہو وہ آسانی سے اختیارات کا خاتمہ اور سونے کی کان سے محرومی کیوں کر برداشت کر سکتے تھے؟ اب مفادات کا یہی سانڈ پلٹ کر مختلف سمتوں اور زاویوں سے حملہ آور ہے۔
حکومت نے اس مرحلے پر ججوں کے تقرر کر کے ’’لو اور دو‘‘ کا تاثر دے اپنا کیس اور تاثر خراب کردیا۔ جس سے آزادکشمیر کی رائے عامہ اور سیاسی جماعتیں تقسیم ہو تی چلی گئی۔ اب یہ معاملہ دوبارہ بیان بازی کا موضوع بن گیا ہے۔ حکومت پوری کی صلاحیتیں اس ترمیم کو ایک انقلاب ثابت کرنے میں صرف ہورہی ہیں اور اس کی تشہیر کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے حالاں کہ اختیار ملنے یا نہ ملنے کا معاملہ تشہیر سے زیادہ زمین پر نظر آنے والی بات ہے۔ اگر آزادکشمیر کو زیادہ اختیار حاصل ہوا ہے تو وہ زمین پر نظر آئے گا۔ اس اختیار کا کرنا بھی کیا جس کے ساتھ عادلانہ سوچ موجود نہ ہو۔ جس علاقے میں اعلیٰ عدلیہ میں تقرر میرٹ کے بجائے برداریوں اور اعلیٰ حکومتی اور عدالتی عہدیداروں میں کیک کی تقسیم کے اصول کے تحت ہوں وہاں لامحدود اختیارات بھی کسی کام کے نہیں ہوتے۔
دوسری طرف پیپلزپارٹی کے چودھری لطیف اکبر اور مسلم کانفرنس کے سردار عتیق احمد اور جموں وکشمیر پیپلزپارٹی کے سردار خالد ابراہیم خان آئینی ترمیم کو اختیار کے نام پر بہت کچھ چھن جانے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ کشمیر کونسل کو آزادکشمیر میں ایوان بالا کی حیثیت حاصل تھی اور یہ ادارہ مظفر آباد اور اسلام آباد کی حکومتوں کے درمیان پُل کا کر دار ادا کرتا تھا۔ کونسل کے خاتمے سے آزادکشمیر کے بہت سے معاملات پر وفاقی حکومت کی گرفت مضبوط ہوگئی ہے۔ اس طول پکڑتی بحث میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان تند وتیز جملوں کا تبادلہ بھی اخبارات میں ہو رہا ہے۔ اب حکومت اور اپوزیشن کے ان دعووں کے بیچ ابھی آزادانہ رائے قائم نہیں کی جا سکتی تاہم حکومت کے حامی آئینی ماہر اور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ حال ہی میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ تیرہویں ترمیم کا سقم دور کرنے کے لیے ایک اور ترمیم متعارف کرائی جا سکتی ہے۔ سنجیدہ حلقوں کی رائے میں ایک آئینی معاملے کو اخبارات کے صفحات میں حل کرنے کے بجائے اسمبلی کے ایوانوں میں حل ہونا چاہیے اور حکومت کو اس مسئلے پر ایک گرینڈ ڈیبیٹ کا آغاز کرنا چاہیے۔