فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے 27-28 جون کو پیرس میں منعقدہ اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرلیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آئندہ پندرہ ماہ میں پاکستان کو دہشت گردی کے لیے مالی امداد اور ناجائز غیر قانونی طریقوں سے رقومات کی بیرونِ ملک ترسیل کو روکنے کے لیے واضح اور نمایاں اقدامات کرنا ہوں گے اور بین الاقوامی سطح پر دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ پاکستان اندرونی اور بیرونی طور پر دہشت گردوں کو رقومات اور عطیات کی فراہمی اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم کو روکنے میں مستعد ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے موقف کی وضاحت کے لیے نگراں وزیر خزانہ محترمہ شمشاد اختر صاحبہ جو پہلے اسٹیٹ بینک کی گورنر رہ چکی ہیں کی قیادت میں قانونی اور مالیاتی امور کی ماہر ٹیم فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں شرکت کے لیے فرانس گئی تھی جہاں پاکستان کی طرف سے ایک 26 نکاتی منصوبہ عمل (Action Plan) اس بین الاقوامی فورم کے سامنے رکھا گیا یہ منصوبہ عمل اُن قانونی، انتظامی اور تحقیقاتی اقدامات پر مشتمل ہے جس پر پاکستان کے متعلقہ اداروں مثلاً ایف آئی اے، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک اور سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو مختلف سطحوں پر عمل کرنا ہے۔ مثلاً ایسے افراد جو کرپشن اور ٹیکس کی چوری کا پیسہ چھپانے کے لیے پیچیدہ قسم کے کاروبار شروع کردیتے ہیں جس کے منافع کے ذریعے کالے دھن کو قانونی بنا لیتے ہیں۔ ایسے افراد تک پہنچنا ہے، اسی طرح منی چینجرز اور بینک جو کرپشن کا پیسہ غیر قانونی اور غیر دستاویزی طریقے سے باہر بھجوادیتے ہیں اور پیسہ کا اصل مالک چھپا رہتا ہے ان کے لیے سخت اور موثر قانون سازی کرنا ہے۔ مزید یہ کہ جو لوگ ان جرائم میں پکڑے جائیں ان کے خلاف سرکاری پراسیکیوٹر کی طرف سے ایک مضبوط مقدمہ پیش کرنا چاہیے تا کہ عدالت ٹھوس شواہد اور مضبوط دلائل کی بنیاد پر سخت سزا دے سکے۔ پاکستان میں ایسے لوگ اگر پکڑے بھی جائیں تو کمزور مقدمے کے باعث بری ہوجاتے ہیں۔ دوسرے ایسے جرائم کی سزا بہت معمولی ہے کہ جیسے اگر 3 یا 4 ارب روپے کی کرپشن کی ہو تو پچاس ساٹھ لاکھ روپے ادا کرکے دوبارہ کرپشن میں لگ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ طاقتور اور بااثر طبقوں میں قانون کا ڈر و خوف ختم ہوچکا ہے جو بھی کسی بااثر کرسی پر بیٹھا ہے ایک سے بڑھ کر ایک کرپشن کررہا ہے، نام اخباروں میں چھپتے ہیں، تصاویر پرنٹ اور پلک میڈیا پر آجاتی ہیں، جرائم کی تفصیل میڈیا میں پہنچ جاتی ہے، کچھ عرصے شور مچتا ہے، نام اور جرم خبروں کی زینت بنا رہتا ہے، پھر معاملہ دب جاتا ہے، ملزم بری ہوجاتا ہے، تمسخرانہ مسکراہٹ اور وکٹری کے نشان کے ساتھ دوبارہ تصاویر آجاتی ہیں، بے چارے عوام عدالتی نظام، پولیس اور دوسرے اداروں کو کوستے رہتے ہیں اور ایماندار لوگ چہرے چھپاتے پھرتے ہیں، گویا ایمانداری ایک گناہ اور بے ایمانی ایک کارنامہ شمار ہوتا ہے۔
فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس مختلف ملکوں پر مشتمل ایک فورم یا گروپ ہے جسے دنیا کے طاقتور امیر ترین سات ممالک (G-7) نے اپنے ایک اجلاس میں 1989ء میں قائم کیا تھا کہ منی لانڈرنگ اور مالی امداد برائے دہشت گردی جیسے معاملات کو روکا جاسکے۔ اصل میں پہلے تو انہی ممالک نے ان کارناموں میں ملوث ہو کر روس کو شکست دی اور دنیا کی طاقت کا توازن امریکا اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں میں آگیا پھر انہیں یہ خدشہ ہوا کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے تو ایسے ممکنہ حادثات کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کیے، جن میں سے ایک اس گروپ کا قیام بھی ہے۔ اب مثلاً یہ کہ یورپ کے قلب میں ایک ملک سوئٹزرلینڈ بھی ہے جو ٹیکس چوروں کی جنت میں شمار ہوتا ہے جہاں پاکستان کے بدعنوان اور ٹیکس بچانے والوں نے اربوں ڈالر چھپائے ہوئے ہیں لیکن سوئٹزرلینڈ کا نام کہیں نہیں آتا۔ مندرجہ بالا گروپ دو قسم کی فہرستیں جاری کرتا ہے، ایک بلیک لسٹ ممالک ہیں جن میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کی روک تھام میں اس گروپ کے ساتھ عدم تعاون کرتے ہیں۔ دوسری گرے لسٹ (Grey List) ہے جس میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جن پر نظر رکھی جاتی ہے اور جائزہ لیا جاتا ہے کہ یہ ممالک ان معاملات کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کررہے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کی معیشت پر پڑنے والے اثرات کا تعلق ہے تو پاکستانی معیشت ویسے ہی سخت مشکلات اور بحرانوں کی زد میں ہے، گرے لسٹ میں جانے سے کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، اس سے پہلے بھی پاکستان 2012ء سے لے کر 2015ء تک گرے لسٹ میں رہا ہے لیکن اسے آئی ایم ایف سے قرضہ بھی ملتا رہا، بین الاقوامی مارکیٹ میں بونڈز بھی جاری کیے، بین الاقوامی سرمایہ کاری بھی ہوتی رہی، لیکن اب یہ پاکستان کے اہم اداروں، ایف بی آر، ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے کی ذمے داری ہے کہ کرپشن کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات وضع کریں۔ کرپٹ لوگوں کی جو معلومات ان اداروں کے پاس ہیں ان کی بنیاد پر ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کریں ورنہ گرے لسٹ سے تو پاکستان کو زیادہ نقصان نہیں ہوگا لیکن کرپشن جو بڑھتا جارہا ہے وہ پاکستان کی بنیادوں کو ہلا دے گا۔