ہم نے سرسید کی شخصیت اور فکر پر کالموں کا آغاز کیا تھا تو پہلا کالم ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس کالم کے جواب میں ڈاکٹر خالد امین نے ایک مضمون لکھا جو فرائیڈے اسپیشل کے 17 نومبر 2017ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس کالم کے کئی اہم نکات کا جواب ہم سرسید سے متعلق مختلف کالموں میں دے چکے ہیں۔ البتہ ان کے مضمون کے تین نکات ایسے تھے جن کا جواب آج کے کالم میں دیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر خالد امین نے اپنے مضمون میں سرسید کے حوالے سے بابائے اردو مولوی عبدالحق کا ایک تبصرہ پیش کیا تھا۔ تبصرہ یہ تھا۔
’’تصویر جس قدر بڑی، شاندار اور نفیس ہوتی ہے اسی قدر اسے پیچھے ہٹ کر دیکھنا پڑتا ہے تا کہ اس کے خدوخال واضح طور پر نمایاں ہو سکیں اور مانع کے کمال اور تصویر کے حسن و قبح کا اندازہ ہوسکے‘‘۔
اس تبصرے کا مفہوم یہ ہے کہ سرسید بہت بڑی شخصیت تھے۔ لیکن ڈاکٹر خالد امین اور ان کی طرح بہت سے لوگ سرسید کو اس لیے ’’بڑا‘‘ کہتے ہیں کہ انہیں معلوم نہیں ہے کہ ہمارے مذہب، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ میں بڑائی اور حقیقی عظمت کا ایک معیار ہے۔ بلاشبہ سرسید کی مقبولیت بہت زیادہ ہے اور برصغیر کی ملت اسلامیہ پر ان کے اثرات بھی گہرے ہیں مگر اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے تناظر میں سرسید کا معاملہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا والا ہے۔ یہ بات سرسید پر ہمارے کالموں سے ثابت ہوچکی ہے۔ تاہم اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ میں بڑائی اور عظمت کے جائزے سے یہ حقیقت اور بھی عیاں ہوجائے گی۔
انبیا و مرسلین کی عظیم اکثریت دنیاوی معیارات کے اعتبار سے کچھ بھی نہ تھی۔ ان کے پاس نہ ریاست تھی، نہ حکومت تھی، نہ مال و دولت تھی، نہ نبوت سے پہلے انہیں معاشرے میں اہم سماجی حیثیت حاصل تھی بلکہ بعض کو تو نبوت کے اعلان کے بعد بھی کوئی خاص سماجی حیثیت حاصل نہ ہوسکی مگر اس کے باوجود انبیا و مرسلین انسانی تاریخ کی عظیم ترین ہستیاں ہیں۔ رسول اکرمؐ نے اعلان نبوت کیا تو بعض کفار اور مشرکین نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو نبوت کے لیے یہی ملے تھے؟ اس سے ان کا مطلب یہی تھا کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے اور ہمیں نبوت نہیں ملی اور محمدؐ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے مگر انہیں نبی بنا دیا گیا۔ ظاہر ہے نبوت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ وہ جس کوچاہتا تھاکام کے لیے پسند فرما لیتا تھا۔ نبوت کے حصول میں کسی حکومت اور مال و دولت یا کسی کدو کاوش کا کوئی دخل ہی نہ تھا۔
جب تک حضرت عمر اسلام نہیں لائے تھے ان کا مرتبہ یا Status اس اعتبار سے عمر ابن ہشام کے برابر تھا کہ رسول اکرمؐ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ عمر بن خطاب اور عمر بن ہشام میں سے کسی ایک کو مشرف بہ اسلام کردے۔ رسول اکرمؐ کی دعا حضرت عمرؓ کے باب میں پوری ہوئی اور حضرت عمر کے ایمان اور اسلام نے انہیں فاروقی اعظمؒ بنادیا۔ اس کے برعکس عمر بن ہشام کا ارتقا ہی نہ ہوسکا اور آج تاریخ اسے ابوجہل کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ ایمان، اسلام اور رسول اکرمؐ کی محبت تھی جس نے ابوبکر کو صدیق اکبر بنادیا۔ عثمان ابن عفان کو عثمان غنیؓ میں ڈھال دیا اور علی کو علی مرتضیٰ کے مقام پر فائز کردیا۔ حضرت عمرؓ کے بارے میں رسول اکرمؐ نے کیا نہیں فرمایا۔ فرمایا میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے۔ فرمایا ہر امت کا ایک محدث ہے اور میری امت کا محدث عمرؓ ہے۔ صحابہ نے پوچھا محدث کیا ہوتا ہے؟۔ آپؐ نے فرمایا جس کی زبان سے فرشتے کلام کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں بے پناہ فتوحات ہوئیں لیکن اگر حضرت عمرؓ ساری دنیا فتح کرلیتے تب بھی وہ صدیق اکبرؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ اس کی وجہ رسول اکرمؐ کی سند ہے۔ ایک روز رسول اکرمؐ حضرت عائشہؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ حضرت عائشہؓ نے آسمان پر بے شمار ستاروں کو دیکھ کر پوچھا کیا کسی انسان کی نیکیاں ستاروں سے بھی زیادہ ہیں؟ رسول اکرمؐ نے فرمایا: ہاں عمرؓ کی نیکیاں ستاروں سے زیادہ ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے پوچھا اور میرے والد کی نیکیاں؟ آپؐ نے فرمایا: عمر کی ساری نیکیاں ابوبکرؓ کی ایک نیکی کے برابر ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ ہمارے عظیم مجددین میں سے ہیں۔ شاہ ولی اللہ فاروق تھے مگر ان کا میلان حضرت علیؓ کی جانب زیادہ تھا۔ شاہ ولی اللہ نے لکھا ہے کہ مجھے کشف کے ذریعے آگاہ کیا گیا کہ ترتیب کو بدلنے کی کوشش نہ کرو۔ ترتیب یہی ہے۔ یعنی ابوبکرؓ، عمر فاروقؓ، عثمان غنیؓ اور علی مرتضیٰؓ۔
مسلم تہذیب میں فلسفے کا سب سے بڑا آدمی ابن رشد ہے۔ اس کی ذہانت اور علم غزالی سے کچھ کم نہیں تھی۔ مگر ان میں فرق یہ ہے کہ غزالی نے یونانی فلسفے کا رد لکھ کر اسلام کو فلسفے کی گمراہیوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچالیا لیکن ابن رشد آخری وقت تک فلسفے کا دفاع کرتا رہا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ غزالی 800 سال بعد بھی ہماری تہذیب اور تاریخ کے حافظے میں زندہ ہیں اور ابن رشد ماضی کی یادگار بن کر رہ گیا ہے۔ انسانوں کی عظمت کے تناظر میں اقبال کا ایک شعر بہت اہم اور عجیب ہے۔ اقبال نے کہا ہے
اقبال کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے
رومی فنا ہوا حبشی کو دوام ہے
یہ شعر حضرت بلالؓ پر لکھی گئی اقبال کی نظم سے لیا گیا ہے۔ شعر میں اقبال نے ایک عجیب Contrast بنایا ہے۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ حضرت بلال ایک حبشی غلام تھے اور سلطنت روما دنیا کی عظیم سلطنتوں میں سے ایک تھی مگر اتنی عظیم سلطنت کے حاملوں کا ذکر مٹ چکا ہے۔ تاریخ انہیں بھول چکی ہے۔ اقبال نے نظم میں کہا ہے کہ ایشیا کے لوگوں کو ان کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں مگر حضرت بلال حبشی غلام ہونے کے باوجود آج تک زندہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت بلالؓ کو رسول اکرمؐ سے عشق تھا۔ یہ مسئلہ بہت نچلی سطح پر بھی کلام کرتا ہے۔ محمد حسن عسکری اردو کے سب سے بڑے نقاد ہیں اور عمر کے آخری حصے میں وہ ذوق کو غالب سے بڑا شاعر کہا کرتے تھے۔ ان کے شاگرد رشید سلیم احمد نے کہا کہ لیجیے عسکری صاحب نے ذوق کو غالب سے بڑا شاعر کہہ دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں غالب کا پورا دیوان حفظ ہے اور ذوق کے چار شعر یاد ہیں۔ سلیم احمد غلط نہیں کہتے۔ غالب اور ذوق کو اگر صرف شاعرانہ معیار پہ دیکھا جائے تو غالب ذوق سے بہت بڑا شاعر ہے۔ مگر عسکری صاحب کی رائے بھی غلط نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذوق اور غالب پر تہذیبی معیارات کا اطلاق کیا جائے تو ذوق واقعتا غالب سے زیادہ روایتی نظر آتے ہیں۔ عسکری صاحب کہتے ہیں اصل چیز یہی ہے کہ فنکار کی جڑیں اس کی تہذیب میں پیوست ہوں۔ یہاں کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ مسئلہ صرف اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ سے مخصوص ہے۔ دنیا کے ہر نظام فکر اور دنیا کی ہر تہذیب زندگی انسان اور اس کی عظمت کو اس طرح دیکھتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ عیسائی تہذیب میں سینٹ اگسٹائن اور سینٹ تھامس اکوائینس کی حیثیت وہی تھی جو اسلامی تہذیب میں غزالی اور ابن عربی کی تھی مگر اب جدید مغربی تہذیب میں خدا اور حضرت عیسیٰؑ کی کوئی حیثیت نہیں تو سینٹ اگسٹائن اور سینٹ تھامس اکوائینس کی کیا حیثیت ہوگی۔ اب مغرب کا آقا و مولا نٹشے ہے، ڈارون ہے، کومٹیہے، روسو ہے، کانٹ ہے، فرائیڈ ہے، سوسیئرہے، فوکو، دریدا ہے۔ سرسید کا تصور خدا ناقص ہے۔ وہ خدا کو قادر مطلق نہیں مانتے، یہ خدا کے انکار کی خفی صورت ہے۔ وہ معجزات کے منکر ہیں اس لیے وہ قرآن کے منکر ہیں کیوں کہ قرآن میں معجزات کا کافی ذکر ہے۔ وہ احادیث کے منکر ہیں، اس لیے وہ آپؐ کی رسالت کے آدھے حصے کو منہدم کیے ہوئے ہیں۔ یہ بھی رسالتؐ کے انکار کی
ایک صورت ہے۔ وہ تفسیر کی پوری روایت کے منکر ہیں۔ وہ فقہ کی پوری روایت کو مسترد کرتے ہیں۔ اس کے بعد بھی کوئی انہیں مسلمان کہے تو اس پر حیرت ہے۔ بدقسمتی سے وہ مغربی انسان بھی نہیں تھے۔ انہوں نے مغربی فکر کی الف ب بھی نہیں پڑھی تھی اس لیے کہ وہ انگریزی ہی نہیں جانتے تھے۔ اگر سرسید مغرب کی طرح مذہب کو مسترد کرکے صرف عقل ہی کو رہنما مان لیتے تو بھی ان کی شخصیت میں ’’یک رنگی‘‘ سے کوئی نہ کوئی عظمت پیدا ہوسکتی تھی۔ مگر وہ اسلام اور کفر، ایمان اور ضلالت کو ایک ساتھ چلانا چاہتے تھے۔ سرسید کے دل میں حقیقی اسلام کی کوئی قدر نہ تھی۔اسلام اور اس کے عقاید سرسید کی ’’عادت‘‘ تھے اور وہ ا س عادت کو مغرب کے تابع کرنا چاہتے تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید مذہبی، تہذیبی اور تاریخی اعتبار سے ’’بڑی شخصیت‘‘ کیا قابل ذکر ’’شخصیت‘‘ بھی نہیں ہیں۔ سرسید ہمارے مذہب، تہذیب اور تاریخ کے پودوں کو پانی سے نہیں تیزاب سے سینچ رہے تھے۔ چناں چہ کوئی معمولی شخص کیا اگر غزالی کی سطح کا آدمی بھی ’’حاضر و موجود سرسید‘‘ کو بڑا کہہ دے تو عرش اور فرش پر اس کی بھد اڑ کر رہ جائے گی اور سمجھا جائے گا کہ غزالی میں کوئی نہ کوئی پوٹھا پن ہوگا۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ سرسید کو بڑا آدمی کیوں کہتا۔ لیجیے ڈاکٹر خالد امین کے مضمون کے ایک نکتے میں ہی کالم تمام ہوگیا۔ ان کے مضمون کے مزید دو نکات پر گفتگو ان شاء اللہ اگلے کالم میں ہوگی۔