پارٹیوں کے منشور اور عمل

402

انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور جاری کردیے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے متحدہ مجلس عمل نے اپنا منشور پیش کیا لیکن پیپلز پارٹی کے نوخیز صدر نشین بلاول زرداری کا دعویٰ ہے کہ وہ بازی لے گئے۔ پیپلز پارٹی کا منشور 28جون کو سامنے آیا تھا اور تب سے بلاول زرداری اپنی انتخابی مہم کے ہر جلسے میں اسے سینے سے لگائے پھر رہے ہیں اور لوگوں کو دور دور سے دکھاتے ہیں گو کہ یہ منشور اردو میں ہے جسے بلاول خود نہیں پڑھ سکتے۔ اس سے قطع نظر جو پارٹیاں کسی نہ کسی صورت اقتدار میں رہی ہیں وہ اپنے منشور میں لمبے چوڑے دعوے کررہی ہیں کہ اگر ایک بار پھر اقتدار مل گیا تو ملک اور عوام کی کایا پلٹ دیں گے۔ لیکن اپنے دور اقتدار میں یہ کام کیوں نہیں ہوا؟ پاکستان پیپلز پارٹی چار مرتبہ مرکز میں حکمران رہی اور گزشتہ 10برس سے سندھ پر مسلط ہے، اب جاکر بلاول زرداری فرما رہے ہیں کہ ہم میٹرو یا گرین لائن نہیں بنائیں گے، انسانوں پر سرمایہ کاری کریں گے، فوڈ کارڈ دیں گے، صحت کی سہولتیں فراہم کریں گے، اپنے نانا اور والدہ کے وعدے پورے کریں گے، ہر ایک کو گھر دیں گے ۔ وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ 10سال میں سندھ میں ان میں سے کون سا کام کیا۔ غریبوں کی یاد اب آرہی ہے تاکہ عام آدمی کو پھر جھانسہ دیا جائے۔ بلاول، آصف زرداری اور پوری پیپلز پارٹی شاید تھرپارکر کو سندھ کا حصہ ہی نہیں سمجھتی جہاں لوگ غذائی قلت اور علاج ، معالجہ نہ ہونے سے روزانہ مر رہے ہیں۔ جس وقت بلاول زرداری کسان دوست اور غریب دوست کے منشور کا چرچا کررہے تھے اور غذا اور طبی سہولیات فراہم کرنے کا دعویٰ کررہے تھے اسی وقت تھر میں غذائی قلت نے مزید 7 بچوں کی جان لے لی۔ اسلام کوٹ سے ملنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اسپتالوں میں دواؤں اور غذا کی قلت سے 7بچوں کی ہلاکت کے بعد صرف جولائی کے 6 دن میں مرنے والوں کی تعداد 17 ہوگئی جب کہ ابھی اس ماہ کا آغاز ہوا ہے۔ تھر کے اسپتالوں میں مریضوں کو شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ مفت ایمبولینس سروس بھی انتظامیہ نے بجٹ کا بہانہ بنا کر بند کردی ہے۔ زرداری خاندان بلامبالغہ کھرب پتی ہے۔ اگر چاہتا تو اپنے خرچ پر ایمبولینس سروس فراہم کرسکتا تھا۔ یہ ہے انسان دوست، غریب دوست اور کسان دوست منشور۔ کیا تھرپارکر کے غریب اب تک پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے آئے۔ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ تو انتہائی سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دور اقتدار میں کہہ چکے ہیں کہ تھر میں ہلاکتیں معمول کی بات ہے، آخر مور بھی تو مر جاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں چیف جسٹس پاکستان آبادی میں اضافے پر پریشان ہیں۔ آلودہ پانی، ناکافی غذا اور علاج کی سہولتیں نہ ہونے تک آبادی میں خود بخود کمی ہوتی رہے گی۔ بلاول اپنے نانا کے وعدے پورے کرنے کا علم اٹھائے ہوئے ہیں لیکن ان کے نانا نے کون سا وعدہ پورا کیا، ذرا یہ بھی بتا دیں۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کیا تھا اور نعرہ لگایا تھا کہ ’’روٹی،کپڑا اور مکان۔ مانگ رہاہے ہر انسان‘‘۔ اب یہی نعرہ بلاول لگا رہے ہیں ۔ وہ انسانوں پر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، بہت اچھی بات ہے۔ لیکن کن انسانوں پر، اس کی وضاحت ضرور کردیں ورنہ آصف علی زرداری نے جن افراد پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے ان میں سے ایک حسین لوائی ہیں یا پھپھی جان فریال تالپور جن کے حوالے سے معزز جج نے استفسار کیاتھا کہ نواب شاہ کو دیے گئے 90ارب روپے کہاں خرچ ہوگئے؟ ۔گزشتہ جمعہ کو صادق آباد کے مقام چانگ فارم نواز آباد میں لکھی ہوئی تقریر پڑھتے ہوئے بلاول نے کہاکہ میں اقتدار اپنے لیے نہیں عوام کے لیے چاہتا ہوں، ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کردیں گے۔ ایسے ہی کچھ خواب صوبہ خیبرپختونخوا پر حکمرانی کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دکھائے ہیں۔ وہ بھی ہر ایک کو ملازمت فراہم کریں گے۔ انسانوں پر سرمایہ کاری کا بیانیہ انہوں نے بھی اپنا لیا ہے۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ایک مزدور کو انجینئر بنا دیا جائے تو وہ جتنا ایک ماہ میں کماتا ہے صرف ایک دن میں یا ایک گھنٹے میں کمائے گا۔ بات تو شاید صحیح ہو لیکن ان سے بھی یہی سوال ہے کہ گزشتہ 5سال میں دھرنوں پر سرمایہ کاری کرنے کے سوا انہوں نے کتنے مزدوروں کو انجینئر بنا دیا، انجینئر نہ سہی، پلمبر ہی بنا دیا ہو۔ انہیں چاہیے تھا کہ اپنے دعوے میں وزن ڈالنے کے لیے چند مثالیں ہی پیش کردی ہوتیں۔ مرکز اور صوبہ پنجاب میں حکومت کرنے والی مسلم لیگ ن نے بھی اپنا منشور پیش کردیا ہے۔ ارب پتی اور کھرب پتی عوامی نمائندوں کے منہ سے غریبوں کی ہمدردی کے دعوے مضحکہ خیز ہیں تاہم ن لیگ نے لاہور میں کئی اچھے منصوبے ضرور شروع کیے ہیں جن کی وجہ سے نوازشریف کو سزا ہونے کے باوجود ابھی پنجاب میں ن لیگ کی مقبولیت باقی ہے۔ گزشتہ جمعرات 5جولائی کو ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے پارٹی کا منشور جاری کیا جس میں کہا گیاہے کہ بھاشا ڈیم، ہیلتھ کارڈ، بچیوں کی تعلیم ترجیح ہوگی۔ لاکھوں افراد کے لیے گھر اور دو لاکھ ملازمتیں تو پکی ہیں ۔ ایک بار پھر وہی سوال۔ مرکز میں 5سال تک ن لیگ کی حکومت رہی، نواز شریف کی نا اہلی کے باوجود زمام کار پارٹی ہی کے پاس رہی اور پنجاب پر تو 10سال سے میاں شہباز شریف کی حکومت ہے جس طرح سندھ پر پیپلز پارٹی کی۔ اس عرصے میں بھاشا ڈیم کے لیے کیا کیاگیا؟ کتنوں کو ہیلتھ کارڈ ملے، کتنی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں حکومت کی طرف سے سہولت دی گئی اور لاکھوں نہ سہی ہزاروں ہی کو گھر دیے گئے، دو لاکھ نہ سہی ایک لاکھ اہل افراد کو ملازمت میں لیا گیا۔ لاہور سمیت پنجاب میں صورت حال یہ ہے کہ حاملہ خواتین کو اسپتالوں میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے رکشا یا اسپتال کی سیڑھیوں پر زچگی ہو رہی ہے۔ اسپتالوں میں ایک ایک بستر پر چار چار مریض لٹائے ہوئے ہیں۔ جعلی ادویات اور جعلی ڈاکٹروں پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ لوڈ شیڈنگ اور بدامنی کا خاتمہ ہماری کامیابی ہے۔ کیا لوڈ شیڈنگ واقعی ختم ہوگئی؟ شہباز شریف ہی نے کہا ہے کہ اب لوڈ شیڈنگ کے ذمے دار ہم نہیں، نگران حکومت جوابدہ ہے۔ گویا فاضل بجلی شہباز شریف جیب میں ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے۔ جناب! لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوئی، اس کو تواپنی کامیابیوں کی فہرست سے نکال ہی دیں، لوگ تو اب تک نام بدلنے کے اعلان کو لیے بیٹھے ہیں۔ شہباز شریف نے منشور پیش کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے بعد ڈیم بنانے ہوں گے، بابر اعوان نے نندی پور پروجیکٹ میں اربوں روپے ضائع کردیے۔ انہوں نے ڈیم بنانے کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کا اعلان کیا لیکن چیف جسٹس پاکستان تو چندہ جمع کرنے کا آغاز کرچکے ہیں۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے بھی پیغام دیا کہ قانون کی حکمرانی ہم پر واجب ہے۔ جمہوری اصول اور آئین کی بالادستی میری ذات اور پارٹی سے اہم ہے۔لیکن صرف اگلے ہی دن وہ قانون کی حکمرانی سے انحراف کررہے تھے۔ ان بڑی پارٹیوں کے منشور اور دعوے دیکھ اور سن کر یہی لگتا ہے کہ ان ہاتھیوں کے دانت کھانے کے اور، دکھانے کے اور ہیں۔ عمل کا موقع ملا تو کچھ کیا نہیں اور اب پھر وعدوں کی پٹاری کھول دی گئی۔ متحدہ مجلس عمل کا تو ایک ہی وعدہ ہے کہ موقع ملا تو پاکستان کو اسلامستان بنا دیں گے۔ قائد اعظم نے بھی تو مدینہ کی ریاست کا حوالہ دیا تھا اور قرآن کو پاکستان کا آئین بنانے کی بات کی تھی۔