ین اے254 مجلس عمل، متحدہ اور پی ٹی آئی میں سخت مقابلہ متوقع

259
این اے 254سے مجلس عمل کے امیدوار راشد نسیم گودھرا نجمن کے عہدیداروں سے ملاقات کررہے ہیں
این اے 254سے مجلس عمل کے امیدوار راشد نسیم گودھرا نجمن کے عہدیداروں سے ملاقات کررہے ہیں

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) شہر قائد کے سب سے بڑے ضلع وسطی میں سب سے بڑے سیاسی معرکے کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔کراچی میں ضلع وسطی کے حلقے این اے254 میں مجلس عمل، متحدہ قومی موومنٹ، پی ایس پی اور تحریک انصاف میں سخت مقابلہ متوقع ہے تاہم عوامی حلقے اور تجزیہ نگار فیڈرل بی ایریا،گودھرا اور شریف آباد پر مشتمل ایک قومی اور 2 صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر مجلس عمل کے امیدواروں کی کامیابی کی امید ظاہرکررہے ہیں‘ ضلع وسطی کی آبادی29 لاکھ 71 ہزار 626 ہے‘ ووٹرز کی تعداد 18لاکھ سے زائد ہے‘ یہاں تقریباً 36 سرکاری اور غیر سرکاری اسپتال ہیں‘خواندگی کی شرح سب سے زیادہ ہے‘ یہاں ایک ہزار352 پرائمری، سیکنڈری، ہائیر سیکنڈری اسکول، ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ اور ڈگری کالجز ہیں‘ اس ضلع سے4 قومی اسمبلی، جبکہ 8 صوبائی اسمبلی کی نشستیں ایوان کا حصہ بنتی ہیں۔ اسی ضلع میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ این اے254 اورصوبائی اسمبلی کے2 حلقے پی ایس125 اور پی ایس126 آتے ہیں، یہاں ووٹروں کی تعداد 5 لاکھ 6309 ہے جن میں 2 لاکھ 73076 مرد ووٹراور2 لاکھ 33233 خواتین ووٹرز
ہیں‘ این اے 254 میں مجلس عمل کے راشد نسیم ، متحدہ قومی موومنٹ کے شیخ صلاح الدین، پی ایس پی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی میئر کراچی ارشد وہرہ اور تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے محمد اسلم ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں‘ گزشتہ کئی عام انتخابات کے نتائج کی روشنی میں اس حلقے کو متحدہ قومی موومنٹ کاگڑھ گردانا جاتا ہے تاہم گزشتہ 2سال میں تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال کے ساتھ شہریوں کی سیاسی سوچ میں بڑی نمایاں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں‘ ایم کیو ایم اور پی ایس پی میں مقابلے کا فائدہ متحدہ مجلس عمل کو ملنے کا واضح امکان ہے‘ جب کہ تاحال لندن گروپ کی جانب سے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان بھی ایم کیو ایم کے لیے مشکلات کا سبب بنا ہوا ہے‘ اس کے ساتھ ہی متحدہ کے سابق ڈپٹی کنونیئر شاہد پاشا کی جانب سے ایک نیا گروپ بنانے کی کوشش بھی جاری ہے جس سے متحدہ قومی موومنٹ کو مزید مسائل کا سامنا ہے ‘دوسری طرف مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایک نشان اور ایک نام سے الیکشن لڑنے پر شہریوں نے اس کاخیر مقدم کیا ہے‘ 2002ء میں بھی مذہبی جماعتوں کے اتحاد کو عوامی حمایت ملی تھی اوراس وقت کے فوجی آمر پرویز مشرف کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ کوکھلی چھٹی دیے جانے کے باوجود متحد مجلس عمل شہر کی کئی قومی اور صوبائی نشستوں پر متحدہ قومی موومنٹ کو شکست دینے میں کامیاب ہو ئی تھی۔ تجزیہ نگار 2018ء کے الیکشن میں بھی مجلس عمل کے لیے اچھے نتائج دیکھ رہے ہیں‘حلقہ 254سے مجلس عمل کے امیدوار راشدنسیم اور صوبائی اسمبلی سے فاروق نعمت اللہ اور مولانا عبدالباقی ہیں ۔ جن کی کامیابی کے واضح امکانات ہیں ‘فاورق نعمت اللہ اپنے حلقہ انتخاب میںآنے والے گلبرگ ٹاؤن کے ناظم بھی رہ چکے ہیں۔