اردوان یا الطاف حسین؟

442

لڑنے بھڑنے اور گتھم گتھا ہوجانے سے بھرپور میاں نوازشریف کی زندگی کا ایک اور دور انجام کو پہنچ گیا۔ ان کے خلاف بڑے مقدمے کا بڑا فیصلہ آخر کار آہی گیا جس کے تحت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے میاں نوازشریف کو دس سال قید مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی۔ نوازشریف کو آٹھ ملین پاونڈ، مریم نواز کو دو ملین پاونڈ رقم بطور جرمانہ جمع کرانے کی ہدایت دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو حکومت پاکستان کی ملکیت قرار دے کر ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن اور شریف خاندان نے اس فیصلے کو مسترد کیا۔
میاں نوازشریف کی سیاست کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کے شدید مخالف کیمپ سے ہوا اور وہ بھی ریٹائرڈ ائر مارشل اصغر خان کی جماعت تحریک استقلال سے جس کا خمیر ہی بھٹو مخالف سیاست سے اُٹھا تھا۔ اصغر خان کی بھٹو سے مخاصمت مدتوں پرانی تھی جب ایوب خان کے دور میں بھٹو اقتدار کی راہ داریوں میں گھوم رہے تھے اور اصغر خان پاک فضائیہ کے سربراہ تھے۔ قومی اتحاد کی سیاست میں مخاصمت اور مخالفت کے جذبات کا طوفان صرف پیمانے سے چھلک پڑا تھا اور ائر مارشل نے ایک بار جوش جذبات میں ذوالفقار علی بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس قدر بھٹو مخالف کیمپ سے آغاز سفر کرنے والے نواز شریف غیر شعوری طور بھٹو سے متاثر ہوتے چلے گئے۔ ان کا مطم�أ نظر طاقتور حکمران بننا تھا۔ اس انوکھی خواہش میں مزاحم ہر رکاوٹ سے وہ ٹکرا جانے پر یقین رکھتے تھے۔ آگے چل کر وہ جدید ترکی کے قائد طیب اردوان سے متاثر ہوتے گئے۔ طیب اردوان ناکام بغاوت سے فتحیاب ہوکر نکلے تو نواز شریف کے حامیوں نے ٹینکوں کے آگے لیٹنے اور باغی فوجیوں کے ہاتھ پیر باندھ کر بازاروں میں گھمائے جانے کی تصاویر اس معنی خیز انداز سے سوشل میڈیا پر شئیر کرنا شروع کیں کہ گویا کہ جلد ہی پاکستان ان مناظر سے آشنا ہونے کو ہے۔
بھٹو صرف طاقت سمیٹنے ہی کا نام نہیں تھا بلکہ ایوب خان کے طویل فوجی حکمرانی اور اظہار رائے کی پابندیوں کے خلاف ایک ردعمل کا نام بھی تھا۔ اب پاکستان میں آمریت اور پابندیوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ حالات کا پریشر ککر پھٹ جائے اور اس دھماکے کے پیچھے سے ایک انقلاب اور انقلابی نمودار ہو اور وہ ٹرین پر بیٹھ کر آبادیوں اور بستیوں کو فتح کرتا ہوا آگے بڑھتا جائے۔ ذوالفقار بھٹو بھی پاکستانی سماج کے لیے ایک کامیاب رول ماڈل نہیں تھے۔ طیب اردوان کو نوازشریف نے طاقت کی ایک نئی علامت سمجھا گویا کہ اردوان محض طاقت سمیٹنے کا نام ہے اس سے پہلے وہ طیب اردوان کے پورے سفر کو ذہن سے محو اور نظروں سے اوجھل کر بیٹھے۔ اپنے ذہن میں بسائے مختلف کرداروں کے گڈ مڈ ہونے سے ان کی سیاست طاقت اور دولت کا تجریدی آرٹ ہو کر رہ گئی۔ انہیں تین بار پاکستان کا اقتدار ملا مگر ہر بار ان کا تصادم ریاستی اداروں اور شخصیات سے ہوتا رہا جو کسی حادثے پر منتج ہوتا رہا۔ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس لندن کے مہنگے اور پوش علاقوں میں دولت کے ایسے انبار ہیں جن کی ملکیت کی پراسراریت کے بارے میں نوے کی دہائی سے چہ مہ گوئیاں جاری ہیں اور ان فلیٹس کا تعلق شریف خاندان سے اسی دور سے جوڑا جاتا رہا ہے مگر اس کا ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا۔ خود شریف خاندان کے لوگ فلیٹس ’’ہمارے ہیں اور نہیں ہیں‘‘ کا متضاد موقف اپنا کر ان اپارٹمنٹس کی ملکیت کو مزید پیچیدہ بنا تے رہے۔ یہاں تک پاناما لیکس میں دنیا بھر میں حکمران طبقات، بااثر سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور غیر سیاسی لوگوں کی چھپی دولت کو عیاں کیا گیا۔ پاکستان کی اپوزیشن نے ان اپارٹمنٹس کا تعلق میاں نواز شریف کی وزرات عظمیٰ سے جوڑ کر یہ مطالبہ شروع کیا کہ اگر یہ اپارٹمنٹس شریف خاندان کی ملکیت ہیں اور اس کی خرید کے لیے رقم کن ذرائع سے حاصل کی گئی۔ معروف جمہوری اصولوں کے مطابق اس معاملے کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے تھا۔ حکمران جماعت پاناما لیکس اور اس کے نتائج کے حوالے سے تعبیر کی غلطی کر بیٹھی۔ انہیں اس معاملے کا اس قدر طول پکڑنے کا انداز ہ نہیں تھا۔ اس کا عکاس خواجہ آصف کا یہ جملہ تھا کہ جلد ہی پاکستانی قوم اور بہت سے واقعات کی طرح پاناما کو بھی بھول بھال جائے گی۔ اس لیے حکومت نے معاملے کو پارلیمنٹ میں حل کرنے کے بجائے عدالتی تحقیقات کی راہ کھول دی۔ یوں عدالت عظمیٰ میں پاناما لیکس کے ایک اعصاب شکن مقدمے کا آغاز ہوا۔ کروڑوں لوگوں کی نبضیں اس مقدمے کے ساتھ ڈولتی اور ڈوبتی رہیں۔ اسٹاک ایکسچینج میں تیزی اور مندی اس مقدمے سے وابستہ ہوگئی۔ یہ مقدمہ ٹی وی چینلوں کی ریٹنگ میں کمی بیشی کا باعث بن گیا۔ ملک میں پہلے سے جاری سیاسی تقسیم گہری ہوتی چلی گئی۔ کچھ لوگوں کے لیے پاناما لیکس ایک سازش تھی تو کچھ اسے آسمانوں سے ہونے والا فیصلہ قرار دیتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود صدر پاکستان ممنون حسین کی ایک تقریر کی وڈیو کلپ سوشل میڈیا میں گردش کرتی رہی کہ جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ پاناما لیکس کا معاملہ اللہ کی طرف سے ہے۔ پاناما لیکس کے مقدمے میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا، یوں ایک نئی سیاسی کشمکش کا آغاز ہو گیا۔
میاں نوازشریف نے عملی طور پر نااہلی کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس چھوڑ دیا مگر وہ ذہنی طور پر اس فیصلے کو تسلیم نہ کر سکے اور انہوں نے جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد سے لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سفر میں ان کا جابجا استقبال تو ہوا مگر وہ وفاق اور پنجاب میں حکومتوں کے باوجود وہ کوئی بڑا طوفان برپا نہ کر سکے۔ اسی فیصلے کے تسلسل میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا مقدمہ احتساب عدالت میں شروع ہوا اور طویل بحث ومباحثے اور عدالتی کارروائیوں کے بعد آخر کار عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔ یوں میاں نواز شریف ترکی کے طیب اردوان تو نہ بن سکے مگر وہ اپنے ہی ملک کا ایک کردار الطاف حسین بن کر رہ گئے۔ غصہ، جھنجلاہٹ اور انتقام جب حدوں سے باہر نکل جائے تو پھر انسان عدم توازن کا شکار ہو کر خود اذیتی کا خوگر بن جاتا ہے۔ الطاف حسین ایک ایسی بارودی سرنگ تھے جنہیں عالمی طاقتوں نے کسی مناسب وقت کے لیے بچھا اور بچا رکھا تھا۔ وہ طاقتیں جنہیں 2015 کے بعد کے نقشوں میں پاکستان نام کا کوئی ملک نظر نہیں آتا تھا۔ ممکنہ خلفشار کی صورت میں ملک کے اقتصادی مرکز اور ساحلی پٹی کو کنٹرول کرنے کے لیے الطاف حسین ایک اثاثہ سمجھ کر انتظار گاہ میں بٹھائے گئے تھے۔ یہ لمحہ گزر گیا اور وقت نے اس بارودی سرنگ کو ناکارہ بنادیا اور اب الطاف حسین حالات کے ڈیپ فریزر میں سڑھی ہوئی سبزی ہو کر رہ گئے ہیں۔ نوازشریف غصے، ردعمل، مطلق طاقت اور مقابل کو فکس اپ کرنے کے منفی شوق میں اب الطاف حسین کے قریب قریب کھسکتے جا رہے ہیں۔