شکوۂ اربابِ وفا

471

’’ووٹ کی شرعی حیثیت‘‘ پر لکھے گئے کالم پرکئی احباب کے تبصرے آئے، جن میں نفسِ مسئلہ کی تحسین فرمانے کے بعد انہوں نے مزید فرمائشیں کی ہیں۔ کالم کی گنجائش محدود ہوتی ہے، ہم کسی مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے کتاب تصنیف نہیں کر رہے ہوتے کہ اُس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کریں۔ اہلِ علم قارئین کرام کو چاہیے کہ جس مسئلے پر بات کی گئی ہے، اپنی پسند یا ناپسند، تبصرے یا تجویز کو ان مندرجات تک محدود رکھیں، مثلاً: ’’ووٹ کی شرعی حیثیت‘‘ پر بات کرتے ہوئے اگر کوئی جمہوریت کو زیرِ بحث لائے، سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے کردار کا تجزیہ کرے یا اُن کے نظریات کا تقابل کرے، ان سب امور کا کالم میں احاطہ نہیں ہوسکتا۔ ہم لکھ چکے ہیں کہ جدید جمہوریت اسلام کی روح کے مطابق نہیں ہے اور اس مطلق العنان جمہوریت سے حقیقی اسلام اور شریعت کا جامع نفاذ عملاً ممکن ہی نہیں ہے۔ اگرچہ ہمارے آئین میں قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے کی ضمانت دی گئی ہے، لیکن جس پارلیمان کے ذریعے قوانین کی منظوری حاصل کی جاتی ہے، اس کے ارکان کی اکثریت علم وکردار کے اعتبار سے اس معیار پر پورا نہیں اترتی، نہ ہی ہمارے رائے دہندگان کی ترجیحِ اول دین کا حقیقی نفاذ ہوتا ہے، ان کی ترجیحات اور ہوتی ہیں۔ خاص مواقع پر ہمارے عوام ناموسِ مصطفیؐ کے تحفظ کے لیے بڑی بڑی ریلیاں بھی نکال لیتے ہیں، بڑے بڑے جلسے بھی منعقد کرتے ہیں، محبتِ الٰہی اور محبتِ رسول ؐ کے حق میں بڑے بڑے دعوے بھی کرتے ہیں، نعرے بھی لگاتے ہیں، لیکن پردے کے پیچھے ووٹ کی پرچی پر مہر لگاتے وقت دینی ترجیحات بہت کم فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ خیالی باتیں نہیں ہیں، پاکستان میں ماضی کے تمام انتخابات کے نتائج کھلی کتاب کی طرح ہیں۔ ہمارے ہاں جن مقتدر قوتوں کا خلائی مخلوق، جنّات، نادیدہ قوتیں، اوپر والے اور اب محکمۂ زراعت کے عنوان سے ذکر ہوتا ہے، اُن کی ترجیحات میں بھی دین بحیثیتِ نظامِ حیات شامل نہیں ہے، یہ بات اگرچہ تلخ ہے، مگر سچ یہی ہے۔ پھر جن عدالتوں میں قوانین کی اسلامی حیثیت کو چیلنج کیا جاسکتا ہے، وہ اس مقصد کے لیے بنائی ہی نہیں گئیں، نہ ہی ان کا ذہنی سانچہ اس فکر میں ڈھلا ہوا ہے، نہ اُن کا پورا نظامِ تعلیم اس کے مطابق ہے، حدِّ ادب مانع ہے، اس سے زیادہ بات نہیں کی جاسکتی۔
لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ اگر نفاذِ شریعت کے حوالے سے جمہوریت سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا درست نہیں ہے، تو متبادل کیا ہے، اس کا ناپسندیدہ مگر حقیقی جواب یہ ہے کہ سرِ دست ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ جمہوریت یا نظامِ انتخاب سے بظاہر لاتعلق رہنے والے مذہبی طبقات کا موقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ پہلے دعوت وتبلیغ کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کی جائے، جب سب کی اصلاح ہوجائے گی، تو منزل آسان ہوجائے گی۔ میں نے آج سے چند سال قبل تنظیمِ اسلامی کے ایک پروگرام میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی موجودگی میں کہا تھا: ’’آپ کی تنظیمِ اسلامی 1975میں قائم ہوئی اور یہ اپنی حکمت عملی کے مطابق اصلاح کا کام جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن آپ پاکستان کی آبادی کے تناسب سے آج تک کتنے فی صد بندوں کو اپنا ہم نوا بناسکے ہیں تاکہ ہم اندازہ لگا سکیں کہ آئندہ کتنے سو سال یا ہزار سال میں پورے معاشرے کی تطہیر ہوجائے گی۔ یہ بھی اس صورت میں کہ شیطان اور ذرّیتِ شیطان آپ کے انتظار میں اپنا کام موقوف کر کے بیٹھ جائیں، جب کہ ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ابلیسی کام کے لیے حالات ہر طرح سے سازگار ہیں، ملکی اور عالمی سطح پر وسائل بھی دستیاب ہیں، جب کہ دینی کام کے لیے میدان اتنا ہموار نہیں ہے۔ تو پھر لمحۂ موجود میں کیا ریاست وحکومت کے نظام کو چلانے کے لیے سیکولر اور لبرل عناصر کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا جائے۔ عربی کا مقولہ ہے: ’’مَالَا یُدْرَکُ کُلُّہ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ‘‘یعنی اگر پورا گوہرِ مقصود ہاتھ نہیں آرہا توجو کچھ ہاتھ آسکتا ہے، اُسے تو حاصل کرلیا جائے۔ اسی سبب ملک کے نظامِ آئین وقانون کے اندر رہتے ہوئے جو مذہبی جماعتیں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور کچھ نہ کچھ کامیابی حاصل کرلیتی ہیں تو نظامِ حکومت میں شامل ان عناصر کی بات کوکچھ نہ کچھ اہمیت مل جاتی ہے، جب کہ نظمِ اجتماعی سے باہر جو دینی طبقات ہیں، اُن کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تاوقتیکہ وہ احتجاج کر کے نظام کو معطل کردیں۔ الغرض پرامن لوگوں کی آواز پر کوئی کان نہیں دھرتا، ہماری ریاستی اور حکومتی اقدار میں شرافت اور امن پسندی طاقت نہیں بلکہ کمزوری ہے۔ دوسرا راستہ القاعدہ اور داعش کا ہے، جنہوں نے امتِ مسلمہ کے وجود کو پارہ پارہ کردیا ہے۔
میرے پاس حزب التحریر کے پڑھے لکھے نوجوان بھی آتے ہیں، جو اِحیائے خلافت کے داعی ہیں، پرعزم اور پرجوش ہیں، لیکن دلیل واستدلال پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ میں ان سے بھی کہتا ہوں کہ آپ خلافت ضرور قائم کیجیے، لیکن جب تک یہ منزل حاصل نہیں ہوتی، کیا نظمِ اجتماعی کو طاغوتی طاقتوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے یا اُس میں ممکن حد تک نفوذ کر کے اصلاح کی کوشش کی جائے اور برائی کا راستہ روکا جائے۔ اگر اِحیائے خلافت کی صورت یہ ہو کہ خلیفۃ المسلمین حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح اچانک کسی مینار پر اترے گا، تو ہم بھی اس کے انتظار میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں، لیکن دین میں کوئی ایسی بشارت نہیں ہے، اس کا راستہ بھی جدّوجہد ہی ہے۔ ہمارے ایک دانشور وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے ہیں کہ اگر آمریت نے ہمیں کچھ نہیں دیا اور کہیں کا نہیں چھوڑا تو جمہوریت نے بھی تو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ بظاہر ایسے تمام لوگوں کی باتوں اور دلیل میں بڑی اپیل ہوتی ہے، یہ دلائل نظام کے نقائص اور ناکامیوں کو بیان کرنے کے لیے تو اِکسیر ہوتے ہیں، مگر کوئی نقّاد ہمیں نہیں بتاتا کہ متبادل صحیح راستہ کیا ہے کہ جسے اختیار کر کے باطل نظام کا قلع قمع کیا جائے اور حقیقی عدل وانصاف پر مبنی نظام قائم ہو۔ سارا میڈیا شب وروز عیوب کو آشکار کرنے ہی میں تو مصروف ہے، مگر روشنی کی کرن دکھانے والا کوئی نہیں ہے اور ہمارے پاس خیر وشر کے اعتبار سے چناؤ کی گنجائش بھی اُنیس بیس یا اٹھارہ بیس کے فرق سے زیادہ نہیں ہے۔ بعض دینی طبقات دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف ہیں، اللہ انہیں کامیابی نصیب کرے، ہر ایک کہے گا: ’’بڑے اچھے لوگ ہیں، بے ضرر لوگ ہیں، اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، کسی سے الجھتے نہیں ہیں‘‘۔ اسی لیے کسی کو ان پر اعتراض بھی نہیں ہوتا،کیوں کہ اعتراض تب ہوگا جب کوئی طاغوتی نظام کی کسی قدر کو چھیڑے گا، اس کے آگے بند باندھے گا، خیر کے غلبے کے لیے میدانِ عمل میں آئے گا، پھر اُسے انتہا پسند، شدت پسند اور نہ جانے کن کن القاب سے نوازا جائے گا، اُن کا تمسخر اڑایا جائے گا، ان کو جاہل اور دقیانوسی قرار دیا جائے گا، الغرض ’’نَہِی عَنِ الْمُنْکَرْ‘‘کرنے والے پر نوازشات کی انتہا ہوگی۔
علی عدنان، نعمان شہیر، بابر سلطان اور دیگر متعدد صاحبان نے کالم کی تحسین کرتے ہوئے فرمائش کی ہے کہ میں بعض امور کے بارے میں رہنمائی فراہم کروں۔ اُن کے فرمودات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف صاحبِ علم اور دیانت وامانت کا حامل امیدوار ہے، مگر اس کی قیادت کرپٹ ہے اور وہ کامیابی کے بعد اس قیادت کے حق میں ووٹ دے گا، اُس کی پالیسیوں کی حمایت کرے گا، تو اس کی ذاتی خوبیاں ملک وقوم کے کس کام آئیں گی۔ اس کے برعکس دوسری طرف امیدوار کرپٹ ہے، مگر ماضی کے ٹریک ریکارڈ کے مطابق قیادت نسبتاً بہتر ہے، اس پر کرپشن کی چھاپ نہیں ہے، یہ کرپٹ امیدوار اس قیادت اور اس کی پالیسیوں کے حق میں ووٹ دے گا، اب ہم کس کو ترجیح دیں، یعنی شر سے خیر برآمد ہونے کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ نعمان شہیر صاحب نے اچھی پالیسیوں کی تشریح اپنے لبرل نظریات کے مطابق کی ہے، جن میں مذہبی انتہا پسندی کا قلع قمع کرنا بھی شامل ہے۔ اُن کا مُدّعا یہ ہے کہ امیدوار کی دیانت اور کردار کو نہ دیکھا جائے، بلکہ قیادت اور پارٹی منشور کو دیکھا جائے۔
ان حضرات کی خدمت میں گزارش ہے، ہم ایسے لوگوں کو باکردار تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں جو چارپانچ سال تک اقتدار سے چمٹے رہیں، اقتدار کی برکات سے مستفید ہوتے رہیں،
باقی صفحہ9پر
مفتی منیب الرحمن
اپنی سیاسی قد کاٹھ کو بلند کرتے رہیں اور جب اقتدار ختم ہونے یا زوال کے قریب ہوتو اچانک ان کا ضمیر بیدار ہوجائے، وہ اپنے آپ کو سربلند وسرفراز اور غیور وجسور قرار دے کر نئے متوقع قبلۂ اقتدار کی جانب رُخِ عقیدت کو پھیر دیں۔ حضور! یہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا نہیں ہے، بلکہ ضمیر کو تھپکی دے کر اور بہلا کر نئے دور کی برکات سے مستفید ہونے کی حکمتِ عملی اور ترکیب ہے، جس کے مظاہر ہم تسلسل کے ساتھ پاکستانی سیاست میں دیکھ رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اکہتر برس گزرنے کے بعد بھی ہمارے مقدر میں شرِّ کثیر اور شرِّ قلیل (Lesser Evil) میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا رہ گیا ہے،کیا ہم شر (Evil) سے رشتہ توڑ کر خیرِ محض (Goodness) یا خیرِ غالب کی طرف رجعت نہیں کرسکتے۔ کیا ہم من حیثُ القوم انہی تاریک راہوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے، ہر بار فیصلے کے وقت آنکھیں بند کرلیں گے اور پھر ماضی کی طرح آنے والے صاحبانِ اقتدار کو ملامت کرکے اِحقاقِ حق اور اِبطالِ باطل کے فریضے سے سبک دوش ہوکر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے دیں گے۔ یہ تو آخرت میں شیطان کے پیروکاروں کا حیلہ ہوگا کہ سارا ملبہ دوسروں پر ڈالیں گے، قرآن کریم میں ہے: ’’اور جب فیصلہ ہوچکے گا تو شیطان (اپنے پیروکاروں سے) کہے گا: بے شک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدہ کیا تھا، سو میں نے اُس کے خلاف کیا اور میری تم پر کوئی زور زبردستی نہیں تھی، صرف اتنی سی بات ہے کہ میں نے تمہیں (اپنی طرف) بلایا اور تم نے میرا کہا مان لیا، سو اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ کو ہی ملامت کرو، نہ میں تمہاری فریاد رسی کر پاؤں گا اور نہ تم میری فریاد رسی کر پاؤ گے، (ابراہیم: 22)‘‘۔ سورۃ الاحزاب آیات 66 تا 68 میں ہے کہ ابلیس اور اس کے چیلوں کے پیروکار اُن کے خلاف سلطانی گواہ بن جائیں گے، جس کے مظاہر ہم جیتے جاگتے اپنے گردوپیش میں بھی دیکھتے رہتے ہیں۔