کراچی برباد کرنے والوں کو مسترد کر دیں

315

متحدہ مجلس عمل کے رہنما امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کراچی کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس شہر کو برباد کرنے والوں کو مسترد کر دیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ متحدہ اور پی پی نے کراچی کو پانی و بجلی سے محروم کیا۔ کچروں کے ڈھیرلگانے اور اداروں کی بندر بانٹ کے بعد اب خود بھی کراچی کی ترقی کے دعویدار بن کر میدان میں کود پڑے ہیں ان دونوں پارٹیوں کے بارے میں یہ محض دعویٰ یا الزام ہی نہیں حقیقت بھی یہی ہے۔ حیرت ہے متحدہ قومی موومنٹ والے اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ووٹ دیں تاکہ ہم شہر کو پانی سڑکیں اور پارکس دیں، اس شہر کو ترقی ہم دیں گے۔ یہ وہی متحدہ قومی موومنٹ ہے جس کا میئر فاروق ستار کو بنایا گیالیکن وہ عبدالستار افغانی کی جانب سے 100ملین گیلن اضافی پانی کے منصوبے کے بعد ایک بوند پانی کا بھی اضافہ نہیں کر سکے۔ پھر اسی متحدہ قومی موومنٹ نے مصطفی کمال کو سٹی ناظم بنایا تو وہ نعمت اللہ خان کے دور میں کراچی کو دینے والے 100ملین گیلن اضافی پانی کے بعد ایک قطرہ پانی بھی کراچی کو نہیں دے سکے بلکہ صوبے میں پیپلز پارٹی اور حکومت سندھ اور مرکز میں جنرل پرویز سے ملی بھگت کرکے نعمت اللہ خان کے کراچی کے لیے پانی، سڑکوں، سرکلر ریلوے اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کو رکوانے میں مصروف ہو گئے جو گرین بسیں چلا دی گئی تھیں انہیں بھی غائب کر دیا گیا۔ سب سے بڑا ظلم تو مصطفی کمال کے دور میں ہوا کہ کراچی کے سیکڑوں پارکس غائب کرکے وہاں چائنا کٹنگ کر دی گئی۔ پلاٹ فروخت کرکے تعمیرات کر دی گئیں۔ بہت سے پارکوں میں سیکٹر اور یونٹ آفس بنا دیے گئے بعد میں اسلحہ کے ڈھیر ان ہی مقامات سے نکلے۔ کراچی کو پانی سے محروم کرنے اور پارکوں پر قبضہ کرنے کے بعد کے الیکٹرک کے ساتھ سندھ حکومت اور متحدہ نے ملی بھگت کرکے عوام کو بے تحاشا لوٹا ہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ کراچی کے عوام کی نمائندگی کرنے والی متحدہ نے حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے 17اہم محکمے صوبے کے کنٹرول میں جانے پر ایک آواز بھی نہیں اٹھائی کیونکہ دونوں میں ملی بھگت تھی۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول کو سندھ بلڈنگ کنٹرول بنا کر صوبائی حکومت نے بہت بڑا ڈاکا مارا اورکے بی سی اے کو ایس بی سی اے بنا دیا گیا۔ اور جو لوٹ مار ایم کیو ایم تنہا کرکے اس کا حصہ پی پی کو پہنچانی تھا وہ ساری لوٹ مار سندھ حکومت کے کنٹرول میں آگئی۔ اب رجسٹرار کی پوسٹ بھی کروڑوں میں بکتی ہے اور معمولی اسسٹنٹ بھی کروڑوں دے کر پوسٹنگ کراتا ہے۔ کیونکہ یہاں قانون کے نام پر لوگوں کو لوٹا جاتا ہے۔ متحدہ نے کسی ادارے کی صوبائی حکومت کو منتقلی پر ایک آواز نہیں اٹھائی۔ بلکہ اس کے حق میں آواز اٹھانے والوں کی راہ میں رکاوٹیں ضرور کھڑی کیں۔ اس شہر کے امن کو بھی ان دونوں جماعتوں نے تباہ کیا متحدہ کی لسانی سیاست نے اس کے امن کو تباہ کیا۔ تین عشروں میں 35ہزار لوگ اس کی بھینٹ چڑھ گئے اور آج یہ تین چار دھڑوں میں تقسیم ہو کر معصوم بن گئے۔ سب کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں آج سب معصوم ہیں۔ جو سوال اٹھایا جائے اس کا جواب ان ہی لوگوں کے سرنکلے گا۔ پانی، بجلی، بدامنی، بیروزگاری، لیاری کا امن، بھتا کلچر، بلدیہ ٹاؤن فیکٹری، 12مئی، کون کون سی چیز سامنے لائی جائے۔اصل بات یہ ہے کہ 25 جولائی کو کراچی کے عوام کے ہاتھ میں اپنی تقدیر ہے اگر ایک بار پھر وہ اپنی لگام ان ہی قوتوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں تو پھر ایسے ہی حالات کے لیے تیار رہیں ۔ ورنہ ووٹ 25جولائی کو اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے والا فیصلہ کریں۔ مجلس عمل کی صورت میں ان کو جماعت اسلامی کے وہ چہرے دستیاب ہیں جو میدان میں خدمت کے ریکارڈ قائم کر چکے ہیں ان کی ایمانداری کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ نڈھونڈے سے بھی ان کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام نہیں ملتا، فیصلہ شہر کے لوگوں کے اپنے ہاتھ میں ہے۔