احتساب، خواب اور سراب

185

کراچی کی مقامی عدالت نے معروف بینکار اور سابق صدر آصف زرداری کے دست راست حسین لوائی کو منی لانڈرنگ کے مقدمے میں گرفتار کر لیا ہے۔ حسین لوائی اور ان کے ساتھیوں پر اربوں روپے کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ حسین لوائی کی گرفتاری اسلام آباد کی احتساب عدالت کی طرف سے میاں نواز شریف خاندان کے خلاف مقدمے کے فیصلے کے دوسرے روز ہوئی اور اس سے یہ اندازہ ہورہا ہے کہ اب احتساب کا ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت احتساب کی وہ امید دوبارہ بندھ چلی جو مدتوں سے پاکستانی عوام کے دلوں میں اُبھرتی ڈوبتی رہی ہے۔ مارشل لا کے بعد ملک میں جس پارلیمانی جمہوری عمل کا آغاز ہوا وہ اپنے دامن میں کرپشن کا تحفہ سمیٹے ہوئے آیا۔ ترقیاتی فنڈز کا عوامی نمائندوں کو حاصل ہونے والا اختیار کرپشن کی ایک گنگا جمنا بہانے کا موجب بنا۔ بڑے سودوں میں کمیشن کا رواج چل نکلا اور اعلیٰ ایوانوں میں کرپشن اور کمیشن طے ہونے لگے۔ بالائی ایوانوں میں فروغ پانے والا یہ کلچر رفتہ رفتہ نیچے تک سرایت کرتا چلا گیا اور یوں بحال�ئ جمہوریت کے ساتھ ہی کرپشن کا کلچر بھی فروغ پزیر رہا۔
جمہوریت کا ایک اہم تقاضا مضبوط احتسابی اداروں کا قیام ہوتا ہے جو سیاسی مزاجوں، موسموں اور وابستگی سے بے نیاز ہو کر اپنا کام کرتے ہیں۔ اس کی زد کسی طاقتور اور بااثر پر پڑے یا کسی کمزور وناتواں پر احتساب کے نظام کے لیے اس کی چنداں اہمیت نہیں ہوتی۔ اس سے جمہوریت کی گاڑی درست سمت میں صحیح راہ پر محوِسفر رہتی ہے۔
مابعد جنرل ضیاء منظر نامے میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی سیاسی حکومتوں کا تسلسل جنرل مشرف کی فوجی حکومت میں ٹوٹ گیا مگر یہ دور بھی ماضی کا تسلسل ہی رہا بلکہ اس دور میں بگاڑ کچھ اور بڑھ گیا۔ چوں کہ جنرل مشرف کے دماغ میں مصر کے مطلق العنان حکمران حسنی مبارک کی طرح عشروں تک پاکستان پر حکمرانی کا سودا سمایا ہوا تھا اور یوں حقیقی اور بے لاگ احتساب کی طرف پیش رفت کرنے کے بجائے مشرف نے بھی سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں کا اسیر ہوکر ہر قسم کے بدعنوان عناصر کو شریک اقتدار کر لیا۔ اس کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو سیاسی حکومتوں نے لفظ احتساب ہی سے بِدکنا شروع کر دیا۔ اب دونوں بڑی جماعتوں کی قیادتوں کے درمیان عالم جلاوطنی میں لندن کے دریائے ٹیمز میں میگنا کارٹا کی طرز پرہونے والا ’’میثاق جمہوریت‘‘ دونوں کو ایک دوسرے کی کمزوریوں سے نظریں چرانے کا جواز فراہم کرنے کے لیے موجود تھا۔
میثاق جمہوریت عالمی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ملک کی دوبڑی جماعتوں کے درمیان فوج کا راستہ روکنے کے لیے کرایا جانے والا عہد نامہ تھا۔ جمہوریت کے فروغ سے زیادہ یہ معاہدہ دونوں کی پردہ پوشی کے لیے استعمال ہوتا چلا گیا۔ سیاسی حکومتوں نے مفاہمتی پالیسی کو فروغ دے کر احتساب سے کلی طور پر نظریں چرالیں اور یوں حقیقی جمہوریت کا جزولاینفک یعنی احتساب غیر متعلق ہونے سے جمہوریت کمزور ہو گئی۔ اس سے حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع تو ملا اور ملک کسی بڑی سیاسی آویزش کا مرکز بھی نہیں بنا مگر اس سے احتساب کے حوالے سے ایک خلا پیدا ہوگیا۔ احتساب ایک مدت تک عام آدمی کا خواب رہا۔ پاکستانی عوام ایک مدت تک کسی امام خمینی کا انتظار کرتے رہے پھر صدام حسین کی طرف سے کرپٹ افسروں اور ٹھیکیداروں کو سڑک پر لٹکانے کی کہانیاں ہم تک پہنچیں تو پاکستانی قوم ایک صدام حسین کی آمد کی امید پر جیتی رہی۔ اس میں قطعی دو رائے نہیں کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ عوامی ٹیکسوں سے حاصل رقم کا ناجائز استعمال، ملکی مفاد کو نظرانداز کرکے پسند وناپسند کی بنیاد پر ہونے والے سودے ہیں۔ ملک کے وسائل کی خفیہ ذرائع سے بیرون ملک منتقلی ہے۔ بینکوں سے قرض لے کر معاف کرنے کی قبیح رسم وریت ہے۔ ان رویوں نے ملک کو گھن کی طرح اندر سے چاٹ کھایا ہے۔ کرپشن نے سسٹم کوکھوکھلا کر دیا ہے۔ کرپشن میں کوئی ایک طبقہ ملوث نہیں۔ اس بہتی گنگا میں جہاں سیاست دان اور بیوروکریٹ ہاتھ دھونے میں پیش پیش ہوتے ہیں وہیں نفع بخش اداروں کی نگرانی پر مامور جرنیل بھی پیچھے نہیں رہتے۔ فوجی نظام کے تحت گو کہ ان میں اکثر سز پاتے ہیں مگر عوام کی تشفی کے لیے یہ کافی نہیں۔ ملک ومعاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے بے لاگ احتساب ناگزیر ہے۔ اس میں سویلین اور خاکی کی کوئی تمیز روا نہیں رکھی جانی چاہیے۔
میاں نواز شریف اور آصف زرداری کو کٹہرے میں کھڑا کرنا اور کئی برس تک ملک پر بلا شرکت غیرے حکومت کرنے والے پرویز مشرف کو آزادیوں میں پھڑپھڑانے اور چہچہانے کے مواقع دینا قطعی تقاضائے انصاف نہیں۔ جنرل مشرف صدر پاکستان تھے، دنیا کی چند جانی مانی افواج میں شمار ہونے والی فوج کے سربراہ تھے مگر سعودی عرب کے مرحوم شاہ عبداللہ ان کے اکاونٹ میں ہر ماہ خاموشی سے گھریلو اخراجات کے لیے کچھ رقم چھوڑ جاتے تھے۔ جنرل مشرف کی بیان کردہ یہ کہانی بھی شریف خاندان کے قطری خط کی طرح ایک افسانہ اور قابل تحقیق عمل ہے۔ مرحوم سعودی فرماں روا اپنی اس ’’غریب‘‘ پروری اور سخاوت کی کہانی کی تصدیق کے لیے دنیا میں موجود نہیں مگر تحقیق سے اس کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ احتساب کا عمل شروع ہوا ہے مگر اس کی ساکھ اور اعتبار اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب تک یہ پسند وناپسند کے دائروں سے باہر نہیں نکلتا۔ مرضی کا احتساب ماضی میں بھی اس اصطلاح کو بے توقیر بناتا رہا ہے اور اب بھی اس معاملے میں پسند وناپسند احتساب کی اصطلاح کو بے معنی بنا سکتی ہے۔ قوم ایک نئی صبح کے طلوع کے لیے جس بے لاگ احتساب کی منتظر ہے خدا کرے اس بار یہ داغ داغ اُجالا اور شب گزیدہ سحر ثابت نہ ہو۔