جدید سیاسی اصطلاحات

344

1990کے عشرے میں ہمارے ہاں پارلیمنٹ کے اندر سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کے لیے ہارس ٹریڈنگ یعنی ’’تجارتِ اَسپاں‘‘ کی اصطلاح شروع ہوئی تھی۔ منتخب اراکینِ اسمبلی کو اقتدار کی سیاست میں محاذ آرا حریفوں نے گھیر کر اپنے اپنے اصطبل یعنی محفوظ مقامات پر ٹھیرانے کا انتظام کیا۔ اُسی دور میں چھانگا مانگا کی اصطلاح وضع ہوئی، محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کی گئی تھی جو ناکام ہوئی۔ پیپلز پارٹی اپنے حامیوں کو گھیر کر اسلام آباد میں جمع کر رہی تھی اور مسلم لیگ ن پنجاب میں، تاکہ عین وقت پر وہ چھاتا بردار قومی اسمبلی کے فلور پر اتریں اور اپنا کردار ادا کریں، ایسا نہ ہو کہ بیچ میں کوئی اچک لے اور ترغیب، ترہیب یا تحریص کے حربے سے اُنہیں اپنا ہمنوا بنالے، چڑیا ہاتھ سے اڑ جائے اورکفِ افسوس ملتے رہ جائیں۔ منتخب نمائندوں نے اس پر کوئی خاص برا نہیں منایا، کیوں کہ ہمارے ہاں اصل الاصول اقتدار پر فائز ہونا یا اہلِ اقتدار کے قریب ہونا ہے، چند مستثنیات کے سوا اصول ونظریات کی باتیں محض فیشن کے طور پر ہوتی ہیں۔
اکیسویں صدی میں منحرف سیاست دانوں کے لیے لوٹے کی اصطلاح عام ہوئی، ویسے یہ اصطلاح قدیم ہے، اردو کا محاورہ ہے: ’’بے پیندے کا لوٹا‘‘ یعنی جو کسی بھی طرف لڑھک سکتا ہے، لیکن حریصانِ اقتدار اتنے بھی بے پیندا نہیں ہوتے کہ کسی بھی طرف لڑھک جائیں، وہ اگر لڑھکتے بھی ہیں تو ہمیشہ کرسیِ اقتدار کی طرف ہی لڑھکتے ہیں اور اس میں ذرہ برابر غلطی نہیں کرتے، بلکہ اگر ان کی چشمِ دوربیں مستقبلِ قریب میں اقتدار کا ہُما کسی کے سرپر بیٹھتا ہوا دیکھ رہی ہو، تو اُن کی سیاسی حس وقت سے پہلے اُسے بھانپ لیتی ہے اور پھر وہ قبل�ۂ اقتدار کی طرف رخ پھیرنے میں دیر نہیں کرتے۔ حالیہ سیاست میں خلائی مخلوق، جنّات اور غیبی قوتیں ایسی اصطلاحات کا اضافہ ہوا ہے، لیکن کسی کی مجال نہیں کہ وضاحت کے ساتھ نام لے، پہلے اُسے اسٹیبلشمنٹ یعنی مقتدرہ کہا جاتا تھا، مگر اب احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔ شنید ہے کہ خلائی مخلوق نے اپنے نمائندوں کے لیے جیپ کا نشان اختیار کیا ہے، حالاں کہ ہوائی جہاز کا نشان ہونا چاہیے۔
ہماری باوقار عدلیہ نظامِ حکومت کی تطہیر کے لیے آج جتنی متحرک ہے، پہلے کبھی نہ تھی، مستقبل کا علم اللہ کے پاس ہے۔ اسی تطہیری عمل کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان نے سرکاری اشتہارات میں منتخب سیاسی حکمرانوں کی تصویریں شائع کرنے پر برہمی کا اظہار کر کے اسے ممنوع قرار دیا ہے، لیکن یکم جولائی کے قومی اخبارات میں اسٹیٹ
بینک آف پاکستان کا ایک اشتہار شائع ہوا ہے، جو صدرِ پاکستان، نگران وزیرِ اعظم، وفاقی وزیرِ تجارت ومنصوبہ بندی اور گورنر اسٹیٹ بینک کی تصویروں سے مزین ہے۔ اسی لیے سیاست دان یہ سمجھتے ہیں کہ اصل ہدف صرف ناپسندیدہ سیاسی رہنما ہیں، باقی سب کے لیے تمام رعایتیں موجود ہیں۔ یکم جولائی کو میڈیا نے دکھایا کہ چیف جسٹس آف پاکستان راولپنڈی اسلام آباد کے اسپتالوں کے دورے کے دوران شیخ رشید احمد کے ہمراہ اُن کے حلقے میں گئے، جنابِ چیف جسٹس نے اُن کے حلقے میں ایک زیرِ تعمیر اسپتال کو اٹھارہ ماہ میں مکمل کرنے کا حکم صادر فرمایا اور ہدایت دی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی نگرانی میں اسے اٹھارہ ماہ میں مکمل کیا جائے، فنڈ دستیاب ہوں گے۔ روزنامہ دنیا نے چیف جسٹس آف پاکستان کے یہ ارشادات رپورٹ کیے: ’’شیخ رشید کی درخواست پر نہیں، اپنی مرضی سے راولپنڈی میں زیرِ تعمیر اسپتال کا دورہ کیا، میڈیا منفی تاثر کو زائل کرے، کسی کی انتخابی مہم نہیں چلا رہے‘‘۔ بصد ادب گزارش ہے کہ جب انتخابی مہم عروج پر ہو اور چیف جسٹس کے شانہ بشانہ اُس حلقے کا امیدوار نظر آئے، تو نظریں بھی اٹھیں گی، سوالات پیدا ہوں گے، میڈیا اس تاثر کو کیسے زائل کرے گا۔ جب کہ قومی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد حکومت کی طرف سے کسی بھی حلقے میں ترقیاتی پروگرام کا اعلان یا اجرا الیکشن کمیشن کے ضابطوں کی رُو سے ممنوع ہے۔
سرِ دست عدالتی فعالیت کے بطن سے عوام کے لیے ریلیف کی ایک صورت پیدا ہوئی ہے کہ موبائل فون کے بلوں پر جو ٹیکس کی کٹوتی ہورہی تھی، اسے روک دیا گیا ہے، اللہ کرے ایسا ہی رہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کٹوتی کی آڑ میں موبائل فون کی کمپنیاں قوم کے اربوں روپے ہڑپ کرچکی ہیں اور ٹیکس کے نام پر کاٹی گئی پوری رقم کبھی بھی قومی خزانے میں جمع نہیں ہوئی، نیز جناب چیف جسٹس نے پٹرولیم کی ملک کے دوردراز علاقوں تک نقل وحمل کے چارجز کی کراچی والوں سے وصولی کو غیر منصفانہ قرار دیا ہے، سرِدست پٹرول اور ڈیزل کا ریٹ کراچی اور گلگت بلتستان میں یکساں ہے، اہلِ کراچی اس حوالے سے عزت مآب چیف جسٹس کی جانب سے ریلیف کے منتظر ہیں، دیکھیے کب نویدِ جانفزا ملتی ہے۔ مزید براں یہ کہ انہوں نے پٹرول اور اس کی مصنوعات پر ٹیکس پر بھی نظر ثانی کا عندیہ دیا ہے، شاید اُس کا بھی کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہو، ٹیکسوں میں اتنی بڑی کٹوتی کے بعد بجٹ کے اہداف کیسے پورے ہوں گے، ملک کے مصارفِ جاریہ کی صورتِ حال کیا رہے گی، شاید ہماری قابلِ افتخار عدلیہ اس کے لیے بھی کوئی حکمتِ عملی وضع کرے۔ سرِدست تو بالواسطہ ٹیکس ہی حکومت کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، کیوں کہ ہمارے مرفّہ الحال طبقات براہِ راست انکم ٹیکس مکمل طور پرنہیں دیتے، سو ابھی چشمِ فلک کو انتظار ہے کہ آیا یہ انقلابی اقدامات وقتی لہر ثابت ہوں گے یا دائمی پالیسی کی صورت اختیار کریں گے، نظامِ حکومت کو تو بہرکیف چلانا ہی ہے۔
الیکشن کمیشن بعض ایسے اخلاقی اور قانونی ضابطے جاری کرتا ہے کہ اُن کی تعمیل مشکل ہوتی ہے، اس سے اداروں کی غیر جانب داری اور اعتبار پر سوالات اٹھتے ہیں۔ مثلاً: ضمنی انتخابات میں وزیرِ اعظم یا کوئی وزیرِ اعلیٰ یا ایم این اے اپنی پارٹی کے امیدوار کی انتخابی مہم نہیں چلا سکتا، یہ جمہوری دنیا میں کہیں نہیں ہوتا، اس کی جنابِ عمران خان بارہا خلاف ورزی کرچکے ہیں، کئی دیگر لوگوں کے ساتھ ان کو نوٹس بھی جاری کیے گئے، لیکن وہ صرف رسمی کارروائی ثابت ہوئی۔ ہماری رائے میں جنابِ عمران خان کا موقف درست تھا کہ جب جمہوری عمل جاری ہے، جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہو رہے ہیں، تو سیاسی جماعت کے سربراہ اپنے امیدوار کی انتخابی مہم نہیں چلائیں گے، تو کون چلائے گا۔ لہٰذا وزیرِ اعظم، وزیرِ اعلیٰ یا وفاقی وصوبائی وزراء، ایم این ایز اور ایم پی ایز پر یہ قدغن جمہوری اقدار کے منافی ہے اور اسی لیے یہ بے اثر ثابت ہوئی، الیکشن کمیشن میں نوٹسوں کے انبار تو نظر آئیں گے، لیکن اس کا عملی اثر کہیں بھی ظاہر نہیں ہوا۔ اصل کام قوانین اور ضوابط کا انبار نہیں ہونا چاہیے، بلکہ لازم ہے کہ قوانین مختصر، سادہ، عام فہم اور قابلِ عمل ہوں تاکہ ہر ایک کی سمجھ میں آئیں اور ان کے اطلاق میں کوئی دشواری محسوس نہ ہو اور نگراں اداروں کا وقار اور غیر جانبداری بھی برقرار رہے۔
حالیہ عشروں میں نگران حکومت کا تصور پہلے بنگلا دیش میں آیا، حسینہ واجد اور خالدہ ضیا میں اس پر اتفاق ہوا تھا۔ لیکن پھرحسینہ واجد نے اسے ختم کردیا اور بنگلا دیش کے گزشتہ انتخابات انہوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے منعقد کرائے اور اپنی سیاسی جماعت کی انتخابی مہم بھی اقتدار میں رہتے ہوئے چلائی۔ بھارت کے قومی انتخابات بھی قریب ہیں، بھارتی وزیرِ اعظم مودی اقتدار میں رہتے ہوئے اپنی سیاسی جماعت بی جے پی کی انتخابی مہم چلائیں گے اور کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔
ہمارے ہاں نگران سیٹ اپ کا تصور بنگلا دیش ہی سے لیا گیا ہے، لیکن یہ بے ثمر ہے۔ اول تو یہ کہ وفاق میں وزیرِ اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف یا صوبے میں وزیرِ اعلیٰ اور قائدِ حزبِ اختلاف مل کر جو نگران سیٹ اپ بنائیں گے، وہ حقیقت میں غیر جانبدار کیسے ہوگا۔ اُن کے عدمِ اتفاق کی صورت میں چیف الیکشن کمشنر نگران وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کا انتخاب کریں گے، تو بھی انگلیاں اٹھیں گی، چناں چہ مختلف سیاسی جماعتوں کے اعتراضات اب سامنے آرہے ہیں، اس لیے یہ تجربہ بھی بے ثمر ہے۔
اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن حقیقی معنی میں با اختیار اور غیر جانبدار ہوں اور ان کا برتاؤ سب کے ساتھ یکساں ہوتا کہ جانبداری کا تاثر پیدا نہ ہو، اس کا تعلق دعووں سے نہیں بلکہ عمل سے ہے اور عمل پر شکوک وشبہات موجود ہیں۔ انڈیا کے دسویں چیف الیکشن کمشنر ٹی این سَیشن کا تعلق تامل ناڈو سے تھا، وہ سابق سول سرونٹ تھے، 1990سے 1996 تک وہ انڈیا کے چیف الیکشن کمشنر رہے، انہوں نے بھارتی قومی انتخابات کو اپنی دیانت، غیر جانبداری اور انتظامی مہارت سے اپنی قوم کے سامنے قابلِ افتخار بنایا
وہ ابھی حیات ہیں، انہیں دنیا بھر میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست ہے، بھارت کے قومی انتخابات میں بیاسی کروڑ لوگ ووٹ ڈالتے ہیں، جو ہماری مجموعی آبادی کے تقریباً چار گنا ہیں، لیکن کہیں سے دھاندلی کا کوئی الزام نہیں لگتا، حالاں کہ یہ انتخابات کم از کم پانچ مرحلوں میں ہوتے ہیں اور ان پر کافی وقت صَرف ہوتا ہے، پولنگ اسٹیشنز سے مُہربند بیلٹ باکس الیکشن کمیشن کے مرکز میں آتے ہیں اور آخری انتخابی مرحلے کے اختتام پر گنتی ہوتی ہے اور نتائج کا اعلان ہوتا ہے۔ پہلے چار مراحل کے بعد میڈیا کو پوسٹ پول سروے جاری کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تاکہ یہ سروے اگلے مراحل پر اثر انداز نہ ہوں اور کسی سیاسی جماعت کو فائدہ اور اس کی حریف سیاسی جماعتوں کو نقصان نہ ہو۔ اسی لیے بھارت کو جمہوری دنیا میں امتیازی مقام حاصل ہے کہ جتنے ووٹرز سے ووٹ لے کر وہ حکومت میں آتے ہیں، دنیا میں کوئی جمہوری ملک اس میدان میں ان کا ہمسر نہیں ہے، باقی جمہوری ممالک کی آبادی انڈیا کے مقابلے میں کم ہے، چین کی آبادی انڈیا سے زیادہ ہے، مگر وہاں جمہوریت نہیں ہے۔ ہم انتہائی محتاط انداز میں گزارشات پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، سینئر کالم نگار خالد مسعود خان نے 7جون کو ایک مسئلے کا اشارتاً تجزیہ کرتے ہوئے آخر میں لکھا: ’’کہانیاں تو اس عاجز کے پاس بہت ہیں، لیکن کیا کیا جائے، گرمی میں جیل جانے کی ہمت نہیں پڑتی اور معافی مانگنے کی عادت نہیں‘‘، اس جملے میں پوری کتاب مستور ہے۔