کشمیر میں بھارتی ظلم کب تک

302

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور ڈھٹائی نے تمام حدیں عبور کر لی ہیں لیکن عالمی ادارے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ کشمیری نوجوان برہان وانی کی برسی کے موقع پر کشمیریوں کو اس کی یاد منانے سے روکنے کے لیے کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ پوری وادی میں ہڑتال رہی، فورسز نے جگہ جگہ مظاہرین کو نشانہ بنایا حریت قیادت کو نظر بند کیا ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے سید صلاح الدین کی قیادت میں کفن پوش ریلی منعقد کی گئی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے نیم دلانہ کوششوں اور سرسری حمایت کی وجہ سے کشمیر میں بھارتی جارحیت اور زیادتیوں میں اضافہ بھی ہو رہا ہے اور عالمی اداروں میں اس مقدمے کی پیروی کا حق بھی ادا نہیں ہو رہا ہے۔ فی الحال تو پاکستان میں انتخابات ہو رہے ہیں سب پاکستان کو جاپان، پیرس، لندن، امریکا وغیرہ بنانے کے وعدے کر رہے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کئی بار حکمرانی کرنے والے کشمیر کے معاملے میں خاموش ہیں بلکہ اب انتخابی مہم میں بھی مقامی اور ذاتی عنصر زیادہ ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے پر زیادہ توجہ ہے۔ گزشتہ انتخابات میں کشمیر بنیادی اہمیت رکھتا تھا۔ صرف متحدہ مجلس عمل نے ابتدا ہی میں اپنے منشور میں باقاعدہ کشمیر کے مسئلےء کو اٹھایا ہے لیکن باقی جماعتیں جو اس سے قبل کشمیر کی آزادی کے دعوے کرتی تھیں وہ اس حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ دوسری جانب عالمی ادارے بے حسی کا شکار ہیں یا اس عالمی سازش کا حصہ ہیں جس کے تحت دنیا بھر میں مسلمانوں کو ظلم و زیادتی کا شکار کیا جارہا ہے۔ بھارت کے بارے میں تو پہلے ہی کہا جاتا تھا کہ مگر وہاں انتہا پسندی غالب ہے لیکن لیکن اب تو حکمران بھی انتہا پسند آچکے ہیں اور ان حکمرانو کی انتہا پسندی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دنیا میں اگر کوئی ملک یہودیوں کو، عیسائیوں کو یا کسی مذہبی گروہ (ماسوائے مسلمان) کو کچھ کہہ دے کسی کی عبادات پر اعتراض کر دے تو ریڈ کراس سے لے کر اقوام متحدہ تک ہل جاتے ہیں۔کسی قادیانی یا عیسائی پر کوئی تشدد کرے یا کسی کو توہین رسالت پر گرفتار کرلیا جائے تو یہ عالمی ادارے پاگل ہو جاتے ہیں لیکن دنیا بھر میں مسلمانوں کو قتل کیا جاتا ہے نمازوں سے روکا جاتا ہے، مساجد جلائی جاتی ہیں تو ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، خود امریکا اب اس حوالے سے بھارت کے مقابلے پر ہے۔ مساجد میں سور کی آلائشیں پھینکنا، حملے کرنا، اسکارف اور حجاب کے خلاف مہم چلانا یہ سارے کام امریکا میں ہور رہے ہیں پھر کون مظلوم کشمیریوں کے لیے آواز اٹھائے گا۔ پاکستانی حکمرانوں اور بڑی سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے دوران بھی کشمیر کو نہیں بھولنا چاہیے تھا۔احتساب کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ اسے رکنا نہیں چاہیے لیکن ایک بار پھر کچھ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ پہلے احتساب،پھر انتخاب۔ سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی نے بھی یہ فرمایش داغ دی ہے۔ ماضی میں جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگایا تھا اور90دن میں انتخابات کرانے کا اعلان کیاتھا، جس پر کبھی عمل نہیں ہوا، تو اس وقت ریٹائرڈ ائر مارشل اصغر خان نے یہی نعرہ لگایا تھا کہ پہلے احتساب، پھر انتخاب۔چنانچہ ضیاء الحق کو انتخابات نہ کرانے کا بہانہ مل گیا گو کہ کسی فوجی سربراہ کو بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ احتساب تو ایک ایساعمل ہے جسے ہر وقت اور حالات میں جاری رہنا چاہیے لیکن اس کے لیے انتخابات کو ملتوی نہیں کیا جاتا، انتخابات بجائے خود سیاسی پارٹیوں اور رہنماؤں کا احتساب ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کے لیے عوام کو باشعور بھی ہونا چاہیے کہ کسے رد اور کسے قبول کیا جائے۔