برھان وانی کی شہادت کے 2 سال

278

حزب المجاہدین کے جواں سال کمانڈر برھان مظفر وانی نے جوانوں کے لیے اپنے پرجوش پیغامات اور اپنی مجاہدانہ سرگرمیوں سے قابض بھارتی فوج میں خوف کی لہر دوڑا رکھی تھی اور اس کے حوصلے پست ہورہے تھے۔ عسکری قیادت پریشان تھی کہ اس نوجوان پر کیسے ہاتھ ڈالا جائے جس نے پوری وادی میں بھارت کے خلاف آگ لگا رکھی ہے اور بھارتی فوجیوں کے لیے اپنی کمین گاہوں سے نکلنا دشوار ہورہا ہے۔ برھان ایک چھلاوا تھا جو انٹیلی جنس اداروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود کسی طرح ہاتھ نہیں آرہا تھا، کئی مرتبہ اس پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ فوج کو جُل دے کر نکل گیا، آخر قدرت نے اس کے لیے شہادت کا جو وقت مقرر کر رکھا تھا وہ آن پہنچا۔ مخبری کامیاب ثابت ہوئی اور 8 جولائی 2016ء کو اسے گھات لگا کر شہید کردیا گیا۔ اس کی شہادت نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، پوری دنیا میں اس کی شہادت کی خبر نقارہ بن کر گونجتی رہی اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد ایک فیصلہ کن موڑ پر آگئی جس میں وادی کا ہر نوجوان برھان وانی بننے کے لیے بے تاب تھا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت نے نہایت سفاکی سے فیصلہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں برھان وانی بننے کی اس لہر کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی اور ظلم و جبر کا ہر حربہ آزمایا جائے گا۔ فوج کو تو فری ہینڈ پہلے ہی حاصل تھا اب اسے مزید غیر انسانی ہتھکنڈے اختیار کرنے کی آزادی دے دی گئی جس کے نتیجے میں دنیا نے دیکھا کہ ایک زخمی نوجوان کو جیپ کے پیچھے باندھ کر گھسیٹا گیا اور پیلٹ گنوں کے ذریعے سیکڑوں نوجوانوں اور بچوں کی بینائی چھین لی گئی۔ کتنی ہی بستیوں کو فاسفورس بموں کے ذریعے جلا کر راکھ کردیا گیا، گھروں میں گھس کر خواتین کی بے حرمتی کی گئی، پھول دار درختوں اور کھیتوں کو جلایا گیا اور مجاہدین کے شبہے میں بار بار چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا لیکن اس کے باوجود نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیری نوجوان پہلے سے زیادہ عسکری تحریک میں شامل ہوگئے اور وادی کا کونا کونا آزادی کے نعروں سے گونجنے لگا اور بھارتی فوج کے سربراہ کو تسلیم کرنا پڑا کہ سرحد پار سے ’’دہشت گردی‘‘ کو کنٹرول کرنا تو ہمارے لیے ممکن ہے لیکن ہم کشمیری نوجوانوں کو مزاحمت سے نہیں روک سکتے، ہم جتنے کشمیری مارتے ہیں اس سے زیادہ کشمیری میدان میں آجاتے ہیں، بھارتی فوج کے سربراہ نے تحریک مزاحمت کے بارے میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے کو روکنے کے لیے مذاکرات بہت ضروری ہیں۔ امن کو ایک بار پھر کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ لیکن یہ مذاکرات کیسے ہوں گے، کن شرائط کے تحت ہوں گے، بھارتی قیادت اس پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اس کا ایک ہی موقف ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اس موضوع پر بات نہیں ہوسکتی البتہ مقبوضہ علاقے میں قیام امن کے لیے اور کشمیری نوجوانوں کو مطمئن کرنے کے لیے مختلف تجاویز زیر بحث آسکتی ہیں۔ حریت کانفرنس کی قیادت نے بھارت کے اس موقف کو یکسر مسترد کردیا ہے، سید علی گیلانی کہتے ہیں کہ بھارت جب تک جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم نہیں کرتا اس سے مذاکرات ہو ہی نہیں سکتے، یہ محض قیام امن اور کشمیری نوجوانوں کو چند مراعات دینے کا معاملہ نہیں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے، بھارت اگر بات کرنا چاہتا ہے تو اسے اس ایک نکاتی ایجنڈے پر بات کرنا ہوگی اور ان مذاکرات میں پاکستان کا بیٹھنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان اس مسئلے کا اہم فریق ہے اور کشمیری اس کے بغیر مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھ سکتے۔ یہ ایسا دو ٹوک موقف ہے جس نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے سارے دروازے بند کردیے ہیں۔ بھارت کی مذاکراتی ٹیمیں اس دوران مقبوضہ کشمیر کے چکر لگاتی رہی ہیں لیکن وہ حریت لیڈروں کے ساتھ کوئی بریک تھرو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ سید گیلانی سمیت بیشتر لیڈروں نے ان کے ساتھ ملاقات سے انکار کردیا ہے اگر کسی کے ساتھ ملاقات ہوئی بھی ہے تو اسے منظر عام پر نہیں لایا گیا کہ اس کے نتائج حوصلہ افزا نہ تھے۔ حریت کانفرنس تحریک آزادی کشمیر کا سیاسی ونگ ہے۔ مسلح مزاحمت میں اس کا کوئی کردار نہیں لیکن وہ اسے غلط بھی نہیں سمجھتی، اس کا موقف ہے کہ نوجوانوں کو مسلح مزاحمت پر خود بھارت نے مجبور کیا ہے، وہ اگر اپنی فوج کو ظلم و تشدد سے روک دے اور اسے بیرکوں میں واپس بلالے تو مسلح مزاحمت رُک سکتی ہے لیکن بھارت اس پر آمادہ نہیں ہے وہ مسلح مزاحمت کو دہشت گردی کا نام دے کر اسے دنیا بھر میں بدنام کررہا ہے۔
برھان وانی کی شہادت کے بعد 2 سال کے دوران کشمیری نوجوانوں نے بھارتی فوج کی سفاکی کے مقابلے میں جس عزم و عزیمت اور شوق شہادت کا مظاہرہ کیا ہے اس نے ثابت کردیا ہے کہ ان کے دلوں سے بھارتی فوج کا ڈر اور موت کا خوف نکل گیا ہے وہ اب ظلم و جبر کے آگے سر جھکانے کو تیار نہیں ہیں۔ آزادی ان کی منزل ہے وہ جان دے دیں گے لیکن اپنی منزل سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ نوجوانوں کی قربانی نے عالمی ضمیر کو بھی جھنجھوڑا ہے اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مدتوں بعد مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں جون 2016ء سے اپریل 2018ء کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے، اس رپورٹ میں بھارتی فوج کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی گرافک دستاویزات شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جولائی 2016ء میں عوامی مظاہروں کے جواب میں بھارتی افواج نے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت ہوئی اور بہت سے لوگ اس کا نشانہ بنے۔ ان مظاہروں کو کچلنے کے لیے بھارتی فوج نے مظاہرین کے خلاف سب سے خطرناک ہتھیار پیلٹ گن کا استعمال کیا جس کے چھروں نے ہزاروں بچوں اور جوانوں کی بینائی چھین لی۔ رپورٹ میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے تمام غیر انسانی ہتھکنڈوں کے باوجود تحریک جاری ہے جس نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ہے۔ رپورٹ میں اس اُمید کا اظہار کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے ارکان اور پالیسی ساز اس صورت حال کا جائزہ لیں گے اور اپنی
قانونی طاقت سے اسے روکنے کی کوشش کریں گے۔ اس رپورٹ میں ممتاز کشمیری صحافی شجاعت بخاری کی ٹارگٹ کلنگ کا کوئی ذِکر نہیں ہے جنہیں اس رپورٹ کے مرتب ہونے کے بعد نشانہ بنایا گیا تھا، پچاس سالہ شجاعت بخاری اپنے والدین، اہلیہ اور دو بچوں کو سوگوار چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ مقبوضہ کشمیر کے نہایت فعال، متحرک اور سلجھے ہوئے صحافی تھے۔ وہ بھارت کے ممتاز اخبار ’’دی ہندو‘‘ کے پندرہ سال تک نامہ نگار رہے پھر انہوں نے 2008ء میں ’’ڈیلی رائزنگ کشمیر‘‘ کے نام سے اپنا اخبار شروع کیا، ممتاز بھارتی تجزیہ کار نرو پما سبھرا منین نے شجاعت بخاری کی شہادت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شجاعت کشمیر کو دلی سے آگے دنیا کے دوسرے دارالحکومتوں میں لے کر گئے اس امید پر کہ شاید کشمیر کو وہاں سے کچھ ہمدردی مل سکے اور عالمی رائے عامہ کشمیر کو تشدد کے جہنم سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو۔ انہوں نے لکھا ہے کہ شجاعت کی ٹارگٹ کلنگ اس حقیقت کی عکاس ہے کہ کشمیر میں اب کوئی راستہ محفوظ نہیں ہے، ماضی میں بھی مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں پر حملے ہوچکے ہیں لیکن گزشتہ پندرہ برس میں شجاعت بخاری کی ہلاکت پہلا ہائی پروفائل ٹارگٹڈ قتل ہے، بظاہر اس قتل کی ذمے داری عسکری گروپوں پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن عمومی تاثر یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں نے انہیں نشانہ بنایا ہے۔ واضح رہے کہ جموں میں بی جے پی کے لیڈر اور سابق وزیر لال سنگھ نے ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو دھمکی دی تھی کہ وہ اپنے آپ کو سنبھالیں اور اپنے کام کی حدود کا خود تعین کریں ورنہ ان کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
یہ ہمارے حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پوری عالمی برادری کے لیے ایک چیلنج کا درجہ رکھتی ہے اگر اس نے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اپنی ذمے داری پوری نہ کی تو وہاں انسانی تاریخ کا بہت بڑا المیہ رونما ہوسکتا ہے۔ پاکستان اس وقت انتخابات کے عمل سے گزر رہا ہے انتخابات کے بعد جو بھی حکومت آتی ہے اسے چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر پوری قوت سے آواز اٹھائے اور عالمی طاقتوں کی مدد سے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرے۔