راؤ انوار کی ضمانت!

178

کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اﷲ محسود کے قتل کے مرکزی کردار اور بدنام ترین پولیس افسر راؤ انوار کی ضمانت منظور کرلی ہے اور اسے 10 لاکھ روپے کے عوض رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ راؤ انوار نے ضمانت ملتے ہی بے قصور ہونے کا دعویٰ دہرادیا اور کہاکہ وقت آنے پر بتاؤں گا کہ کس نے مجھے پھنسایا۔ فیصلہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کا ہے اور اس کی حیثیت بھی عدالت ہی کی سی ہے جس نے مذکورہ فیصلہ 5 جولائی سے محفوظ کرکے رکھا ہوا تھا۔ معاملہ چوں کہ عدالت کا ہے اس لیے یہ کہنا تو توہین کے زمرے میں آجائے گا کہ عدالت نے ایسا فیصلہ کیسے دے دیا، جج صاحب نے کچھ سوچ سمجھ کر اور قانون کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر ہی ضمانت دی ہوگی اور فریقین کے دلائل سن کر راؤ انوار کے حق میں فیصلہ دیا ہوگا۔ لیکن اس سے پہلے جو خبریں آتی رہی ہیں ان سے تو یہ ظاہر ہورہاتھا کہ نقیب اﷲ محسود کو جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔ گزشتہ دنوں یہ خبر بھی آئی تھی کہ راؤ انوار نے پولیس مقابلے سے دو گھنٹے پہلے ہی پریس کانفرنس کرکے نقیب اﷲ اور دیگر کے مارے جانے کا انکشاف کردیاتھا۔ عدالت کا فیصلہ اپنی جگہ قال احترام ہے لیکن اب تک تو یہی ثابت ہورہاتھا کہ نقیب اﷲ محسود کوئی دہشت گرد یا جرائم پیشہ نہیں تھا اور اسے کسی اور وجہ سے پولیس کے ذریعے مروایاگیا۔ اپنے حلیے سے بھی نقیب اﷲ دہشت گرد نہیں لگتا تھا۔ محسود جرگے کا کہناہے کہ تفتیشی افسر کا کردار شرمناک ہے اور فیصلے کو عدالت عالیہ میں چیلنج کیا جائے گا۔ یہ بھی کہاجاتا رہا ہے کہ راؤ انوار کی پشت پر سندھ کی ایک بہت طاقتور شخصیت ہے چنانچہ اس کے جرائم ثابت کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ جس طرح راو انوار کو ضمانت مل گئی ہے اسی طرح وہ تمام الزامات سے ایک ایک کرکے بری بھی ہوسکتا ہے۔ راؤ انوار گرفتاری سے بچنے کے لیے فرار ہوگیا تھا اور پھر اسلام آباد میں نمودار ہوا۔ تمام ایجنسیاں اسے تلاش کرنے میں ناکام رہیں۔ اس کا فرار ہی اس کے مجرم ہونے کا واضح ثبوت تھا گو کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے اسے اپنا بہادر بچہ قرار دیا تھا۔ اب پاکستان پیپلزپارٹی کے عملاً سربراہ کے بہادر بچے کو سزا دینا کوئی آسان کام تو نہیں۔ عدالتیں ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہیں اور ثبوت و گواہ فراہم کرنا پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں کا کام ہے جو بہر حال حکمرانوں کی چشم و ابرو کے اشاروں پر چلتی ہیں۔ خبریں یہ بھی تھیں کہ ایک اور طاقتور شخصیت ملک ریاض کے لیے بھی راؤ انوار نے بہت اہم خدمات سرانجام دیں اور بحریہ ٹاؤن کی توسیع کے لیے زمینیں حاصل کرنے میں مدد فراہم کی۔ ایسے شخص کو سزا کیسے ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف نقیب اﷲ محسود اور دیگر افراد کاقتل تو سامنے کی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ انہیں کس نے قتل کیا؟ اگر وہ جعلی پولیس مقابلے میں نہیں مارے گئے تو ان کے قاتل کہاں ہیں۔ راؤ انوار کی ضمانت کے ساتھ ہی دیگر 4 ملزمان کی ضمانت بھی منظور کرلینی چاہیے تھی جن کی درخواست پر ابھی دلائل چل رہے ہیں کیا ان کے لیے کوئی ڈیل نہیں ہوئی؟ایک اخبار کے مطابق تفتیش کرنے والوں نے راؤ انوار کے لیے ڈیل کرلی تھی اور اسے سندھ میں پیپلزپارٹی حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ راؤ انوار ضمانت ملنے کے بعد کسی وقت بیرون ملک فرار بھی ہوسکتا ہے اور قانون لکیر پیٹتا رہ جائے گا۔ راؤ انوار کو اس عرصے میں قید کے دوران میں تمام سہولتیں فراہم کی گئیں اور اسے جیل میں رکھنے کے بجائے اس کے گھر پر رکھا گیا۔ اگر سزا ہو بھی جاتی تو عین ممکن تھا کہ یہ بہادر بچہ بھی آصف زرداری کی طرح ڈاکٹر عاصم کے اسپتال میں ٹھاٹھ سے رہتا۔ اس عرصے میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو بھی نگران حکومت نے تبدیل کردیا جس سے تفتیش متاثر ہوئی۔ حال یہ تھا کہ جب راؤ انوار پیش ہوتا تو پولیس اہلکار اسے سلوٹ کرتے تھے۔ لیکن راؤ انوار کی رہائی خود اس کے لیے خطرناک ہے اور وہ مشکلات میں گھر سکتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جرائم کی دنیا کا یہ غیر تحریری دستور ہے کہ مافیا کسی سے کام لینے کے بعد اس کا منہ بند کردیتی ہے۔ محسود قبیلے میں بھی بڑا غم و غصہ ہے لیکن اسے قانون ہی کا سہارا لینا چاہیے۔ مذکورہ فیصلے سے عدالتوں کے بارے میں منفی تاثر کو فروغ ملا ہے لیکن عدالتوں کا احترام بھی تو لازم ہے۔