اے این پی پر ایک اور ضرب

247

گزشتہ منگل کو پشاور کے علاقے یکّہ توت میں دل گداز سانحہ پیش آیا۔ جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے ضوبائی امیدوار ہارون بلور سمیت 22 افراد جاں بحق ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق یہ خودکش حملہ تھا اور حملہ آور کا اصل نشانہ ہارون بلور تھے جو کے پی 78 سے انتخاب لڑ رہے تھے اور یہ اجتماع انتخابی مہم کا حصہ تھا جس میں دھماکا ہوا۔ چشم دید گواہوں کے مطابق ہارون بلور اپنی گاڑی سے اتر کر کارکنوں سے مل رہے تھے کہ ایک شخص نے ان سے گلے ملتے ہوئے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ بیرسٹر ہارون بلور مرحوم بشیر بلور کے صاحبزادے تھے جو 22 دسمبر 2012ء کو انتخابی مہم کے دوران ہی خودکش حملے کا شکار ہوگئے تھے۔ اس سانحہ کے بعد اے این پی نے 2013ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ تاہم اس حادثے سے کچھ ہی پہلے اے این پی کے رہنما اور سابق وزیر ریلوے غلام احمد بلور ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ 2013ء اور 2018ء میں بڑا فرق ہے۔ اس وقت ہمارا مقابلہ بیت اللہ محسود سے تھا لیکن آج کا ماحول پرامن ہے اور ہم بھرپور انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ اور پھر یہ سانحہ ہوگیا۔ غلام احمد بلور کو گھر سے نکلکنے میں تاخیر ہوگئی اس لیے محفوظ رہے۔ اے این پی کے نظریات سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس پارٹی نے بہت سی جانی قربانیاں دی ہیں۔ پارٹی کے مرکزی رہنما میاں افتخار کا اکلوتا بیٹا بھی شہید ہوچکا ہے۔ اے این پی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) تھی تو اس وقت بلاول زرداری کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ فیڈرل سیکورٹی فورس نے لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسے میں اندھا دھند فائرنگ کرکے سیکڑوں افراد کو قتل کردیا تھا۔ عبدالولی خان دو سو لاشیں اٹھا کر لے گئے تھے اور جبر کے اس دور میں نیپ کے کئی رہنما افغانستان فرار ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔ جب نیپ پر پابندی لگائی گئی تو پارٹی کا نام تبدیل کرکے عوامی نیشنل پارٹی کردیا گیا لیکن ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ابھی تک کسی نے یکّہ توت حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن اندازہ ہے کہ اس کے پیچھے بھی بیت اللہ محسود کے جانشینوں کا ہاتھ ہوگا۔ پاکستان میں نظریاتی اختلاف، خون، خرابے میں بدل جاتا ہے لیکن اس سے کبھی کسی کو فائدہ نہیں پہنچا۔ طالبان پاکستان کے نام سے دہشت گردی کرنے والے پاکستان کو بہت بڑا جانی اور مالی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کا سرغنہ ملا فضل اللہ ڈرون حملے میں مارا گیا ہے جسے ایک عرصے سے امریکا نے’’آید بکار‘‘ کے مصداق سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ یہ پہلو بھی تحقیق طلب ہے کہ اے این پی سے ایسی جان لیوا دشمنی کی بنیاد کیا ہے۔ یہ پارٹی تو سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان عرف باچا خان کی پیروکار ہے جو گاندھی کی طرح عدم تشدد کے پرچارک تھے۔ یکّہ توت کے سانحے میں جانی نقصان تو اپنی جگہ قابل افسوس اور باعث مذمت ہے لیکن اس سے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات پر ایک اور سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہی کوئی اور سانحہ ہوگیا تو انتخابات کی مخالف قوتوں کو انتخابات ملتوی کرنے کا بہانہ مل جائے گا۔ پہلے ہی یہ خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ انتخابات کے دوران میں بڑی خون ریزی ہوگی۔ ایسی افواہوں سے رائے دبندگان کی حوصلہ شکنی ہوگی اور سانحہ پشاور کے بعد سیاسی جماعتیں بھی محتاط ہوجائیں گی اور ہوسکتا ہے کہ کھل کر مہم نہ چلا سکیں۔ ظاہر ہے کہ انتظامیہ کسی کو بھی مکمل تحفظ فراہم نہیں کرسکتی۔ مقتول ہارون بلور کو دو محافظ دیے گئے تھے لیکن خودکش حملے کو روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے لیے خود سیاسی جماعتوں کو اپنی سیکورٹی کے نظام کو مزید موثر بنانا ہوگا۔ گزشتہ منگل ہی کو فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنی مفصل پریس کانفرنس میں یقین دلایا ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے اور فوج غیر جانبدار رہے گی۔ ان یقین دہانیوں کے باوجود فوج کی غیر جانبداری پر شکوک کا اظہار کیا جارہا ہے۔ انتخابی مہم کیا رخ اختیار کرے گی اس کا اندازہ جمعہ 13 جولائی کو ہوجائے گا کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم کی لاہور آمد پر کیا صورتحال پیش آتی ہے اور ن لیگ کس حد تک اپنی طاقت کا مظاہرہ کر پائے گی۔ سانحہ پشاور کی روشنی میں ن لیگ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ شر پسندوں کو وار کرنے کا موقع نہ دیں۔ اللہ تعالیٰ سانحہ پشاور کے مقتولوں کی مغفرت فرمائے۔