بچوں پر ذ ہنی و نفسیاتی امراض و مسائل کے اثرات

343

فوزیہ عباس

کوئی بھی ذہنی یا نفسیاتی مرض یا مسئلہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، معمولی نوعیت کا ہو یا پیچیدہ اس کے بے شمار اور دُوررس منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
بچے/بچی کی زندگی پر اثرات
کسی بھی نوعیت کے ذہنی و نفسیاتی مرض/مسئلے کے سب سے زیادہ منفی اثرات متاثرہ بچے/بچی کی اپنی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں اس کی صحت، معمولات اور شخصیت و کردار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے وہ معمولاتِ زندگی میں دیگر ہم عمروں اور صحت مند بچوں سے پیچھے رہ جاتا ہے۔
اہل خانہ پر اثرات
متاثرہ بچے/بچی کے اہلِ خانہ یعنی والدین اور بہن بھائی وغیرہ بھی ان منفی اثرات کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ بہت حد تک ان کے معمولات ڈسٹرب ہوتے ہیں۔ گھر کے ماحول اور افراد خانہ کے مزاج و رویے پر بھی فرق پڑتا ہے۔ بروقت و باقاعدہ، مکمل علاج نہ کروانے کی صورت میں دیگر افراد خانہ میں بھی مختلف نفسیاتی مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ذہنی دبائو، ٹینشن، ڈپریشن، غصہ، خوف، چڑچڑاپن، مایوسی، مختلف چیزوں کے لیے حد سے زیادہ حساسیت وغیرہ جیسے مسئلے متاثرہ خاندانوں میں عام پائے جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں معاشی نوعیت کے نہ ختم ہونے والے مسائل/اخراجات بھی اہلِ خانہ کے لیے اضافی بوجھ ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ مہنگے علاج کے والدین متحمل نہیں ہوسکتے اور سرکاری اسپتالوں میں علاج کی ناکافی سہولیات کے باعث طویل علاج کے باوجود افاقہ نہیں ہوتا۔
رشتے خراب ہوتے ہیں
کسی بھی ذہنی یا نفسیاتی مرض/مسئلے سے متاثرہ بچے/بچی کی وجہ سے اہلِ خانہ کے بچے کے ساتھ ہی نہیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھی رشتے اور تعلقات خراب ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات ان کے منفی اثرات دیگر عزیزوں اور اہلِ خاندان تک بھی پھیل جاتے ہیں۔
ذہنی اور نفسیاتی امراض و مسائل کا علاج
علاج کے ضمن میں ماہرین و معالجین مرض/مسئلے کی شدت و نوعیت کے حساب سے مختلف طریقوں، مہارتوں، تھراپیز اور کونسلنگ وغیرہ سے مدد لیتے ہیں لیکن اس سب کے ساتھ اگر دو بنیادی نوعیت کی حامل باتوں پر عمل نہ کیا جائے تو کوئی بھی طریقہ یا علاج کارگر ثابت نہیں ہوتا۔
-i والدین کا تعاون
جس طرح چھوٹے بچے/بچی کے مرض/مسئلے کے حل/علاج میں اگر والدین کا تعاون اور مدد شامل نہ ہو تو بچے/بچی کے لیے مرض/مسئلے سے نجات حاصل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے، اسی طرح بڑے بچوں کو بھی والدین کے تعاون، مدد اور بھرپور ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے/بچی کے مرض/ مسئلے کی شدت و نوعیت کو سمجھیں اور معالج کی ہدایات پر پوری طرح عمل کریں کیونکہ نفسیاتی مسائل ماحول، حالات اور رویوں کی دین ہوتے ہیں لہٰذا گھر کے ماحول اور اپنے رویوں کو بدلے بغیر علاج کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتے۔
-ii بچے/بچی کی ذاتی دلچسپی
معالج ماہر و مستند ہو، طریقہ علاج مؤثر و بہترین ہو، والدین ہر طرح سے تعاون کررہے ہوں لیکن اگر متاثرہ بچہ/بچی اپنے علاج یا مسئلے کے حل میں خود دلچسپی نہ لے تو بھی کامیابی ممکن نہیں ہوتی۔ لہٰذا ضروری ہوتا ہے کہ سب سے پہلے والدین اور معالج بچے/بچی میں علاج کے لیے آمادگی و دلچسپی پیدا کریں، یوں بچے/بچی کے لیے معالج کی ہدایات پر عمل کرنا اور مختلف مہارتوں/ طریقوں کی مشق کرنا اور دوائیں وغیرہ باقاعدگی سے وقت پر لینا آسان ہو جاتا ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے/ ہوسکتے ہیں۔
ذہنی و نفسیاتی امراض و مسائل سے بچنے کی چند عمومی تجاویز
ذہنی و نفسیاتی امراض و مسائل سے بچنے کی چند عمومی تجاویز حسبِ ذیل ہیں
مذہب سے لگائو
پانچ وقت کی نماز اور روزانہ کچھ دیر کی تلاوتِ قرآن کی عادت والدین خود بھی اپنائیں اور بچوں میں بھی اس عادت کو پختہ کریں۔ ماہرین نے برسوں کی تحقیق سے وضو، نماز، روزے اور تلاوت قرآن کے جو ناقابلِ یقین اثرات و ثمرات ذہنی و نفسیاتی اور جسمانی و جذباتی صحت کے حوالے سے آج ثابت کیے ہیں، نبیٔ مہربانؐ نے 14 سو سال پہلے انہیں بیان فرما دیا تھا۔ آج دنیا بھر کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مذہب سے لگائو ہر قسم کے ذہنی و نفسیاتی اور جذباتی دبائو کو ختم کرتا ہے۔
مثبت سوچ اپنائیں
والدین کو چاہیے کہ وہ خود بھی روزمرہ معمولات و معاملات کے حوالے سے مثبت طرزِ فکر اختیار کریں اور بچوں کو بھی مثبت سوچ اور درست اندازِ فکر اپنانے کا عادی بنائیں۔ روزمرہ زندگی کے آدھے مسائل مثبت طرزِفکر سے ختم ہو جاتے ہیں۔
گھر کے ماحول کو خوشگوار بنائیں
گھر وہ جگہ ہے جو افرادِخانہ کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی خوشیوں بھری پُرسکون زندگی کا محور و مرکز بھی ہوتا ہے، گھر کے پُرسکون ماحول میں ہر فرد حقیقی خوشی، دلی اطمینان اور ذہنی و قلبی سکون محسوس کرتا ہے جس کے ذہنی و نفسیاتی اور جسمانی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
حقیقت پسندانہ طرزِ فکر اپنائیں
والدین کو چاہیے کہ وہ خود بھی روزمرہ زندگی کے معمولات و معاملات میں حقیقت پسندانہ طرزِفکر اختیار کریں اور بچوں کو بھی زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کرائیں۔ انہیں سکھائیں کہ حقیقت خواہ کتنی بھی تلخ کیوں نہ ہو اسے کھلے دل سے تسلیم کرنے اور ہمت و بہادری سے اس کا مقابلہ کرنے ہی میں بہتری ہوتی ہے۔
پسندیدہ عادات اپنائیں
صاف ستھری پسندیدہ عادات کے حامل والدین اور بچے بہت سی غیر ضروری الجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
روزمرہ کاموں کی ترتیب بنائیں
والدین کو چاہیے کہ وہ خود بھی اپنے کاموں اور معمولات کی ترتیب بنائیں اور بچوں کو بھی روزمرہ سرگرمیوں اور معمولات کے نظام الاوقات پر عمل کرنے کا عادی بنائیں۔ معمولاتِ زندگی میں توازن اور نظم و ضبط غیر ضروری افراتفری، الجھنوں اور مسائل سے محفوظ رکھتا ہے۔
رشتوں کو مضبوط بنائیں
بچے بڑوں ہی سے رشتوں کو برتنا، انہیں جوڑے رکھنا یا ان سے کٹ جانا سیکھتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ رشتوں میں توازن پیدا کریں اور بچوں کو بھی رشتوں کے تقدس و احترام کا خیال رکھنا سکھائیں۔ کیونکہ انسان کی خوشیاں اور زندگی کی خوبصورتی رشتوں کے بغیر ادھوری ہے۔
معاف کرنا سیکھیں
بچوں کو اپنی غلطیاں، کوتاہیاں اور خامیاں own (قبول) کرنا اور دوسروں کی غلطیوں کو کھلے دل سے معاف کرنا سکھائیں۔ معاف کرنا اللہ کو بھی پسند ہے اور ضمیر کو بھی اطمینان و سکون عطا کرکے انسان کو غیر ضروری بوجھ اور ذہنی دبائو سے نجات دلاتا ہے۔
صحت مند مشاغل اور سرگرمیاں اپنائیں
ذہنی و نفسیاتی، جسمانی و جذباتی صحت کے لیے صحت مند سرگرمیاں اور مشاغل ضروری ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود بھی بامقصد، مفید اور مثبت مشاغل اپنائیں اور بچوں کو بھی ان کا عادی بنائیں۔ واک، ورزش، قدرتی مناظر سے بھرپور پارکوں/ باغوں میں سیر کرنا، باغبانی، جسمانی مشقت کے کھیل وغیرہ ذہنی دبائو، گھٹن، فرسٹریشن سے نکلنے میں مدد دیتے ہیں/ ان سے محفوظ رکھتے ہیں۔
منفی رویوں اور منفی جذبات سے گریز کریں
ہر قسم کے منفی رویوں اور منفی جذبات سے گریز کریں اور بچوں کو بھی ان سے دور رکھیں، کیونکہ منفی رویے/ منفی جذبات اپنی ذات کے لیے ہوں یا دوسروں کے لیے ہر دو صورتوں میں صحت اور سکون کے دشمن ہوتے ہیں۔
خدمت خلق کے لیے وقت نکالیں
والدین کو چاہیے کہ وہ خود بھی گھر میں موجود بزرگوں کے ساتھ وقت گزاریں اور بچوں کو بھی نانا، نانی، دادا، دادی اور دیگر بزرگوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی خدمت کرنے کی عادت ڈالیں۔ علاوہ ازیں گلی محلے کے بزرگ افراد کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آنا، ان کے چھوٹے موٹے کاموں میں مدد کرنا ذہنی سکون اور قلبی اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔ والدین کے لیے ممکن ہو تو مختلف رفاہی اداروں/ اسپتالوں/ یتیم خانوں/ اولڈ ہومز میں عیدین اور دیگر مواقع پر بچوں کو ساتھ لے کر جائیں اور وہاں موجود بوڑھوں، بیماروں اور بچوں کے ساتھ وقت گزار کر بہت سا ذہنی سکون، بے شمار دعائیں اور ڈھیر سارا اجر و ثواب حاصل کریں۔