بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ حالیہ انتخابات ملک و قوم کے لیے نیک شگون ثابت ہوں گے وہ اس امر کو بھی خوش آئند قرار دے رہے ہیں کہ ملک میں دو پارٹی نظام مضبوط ہورہا ہے، پہلے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہی باری باری حکومتیں تشکیل دیتی رہی ہیں۔ اب پیپلز پارٹی قصہ پارینہ بنتی جارہی ہے اور مسلم لیگ کے مقابل تحریک انصاف اپنے قدم جما رہی ہے۔ تحریک انصاف کے بارے میں عوام خوش فہمی میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں اور اس خوش فہمی کے نتیجے میں عمران خان کو ایک موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام آزمائے ہوئے لوگوں سے اُکتا چکے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں عمران خان کو موقع ملنا چاہیے، ممکن ہے وہ قوم کی اُمنگوں پر پورا اُتریں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص اپنے کارکنوں کی خواہشات کا احترام نہ کرسکا وہ قوم کی ترجمانی اور رہنمائی کیسے کرسکتا ہے؟۔ ٹی وی اینکرز کا خیال تھا کہ عدالتی فیصلوں نے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کو گہنا دیا ہے، رہی سہی کسر میاں نواز شریف کے رویے نے پوری کردی۔ میاں نواز شریف کے بیانات کو ان کی سیاسی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے مگر عوام کی جانب سے ان کے احترام میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا جارہا ہے۔ شطرنج کی بساط پر شہ کو مات سے بچانے کے لیے جس مہرے کو آگے بڑھایا جاتا ہے وہ اردب کہلاتا ہے، سیاسی بساط پر شہ کو مات دینے کے لیے جس مہرے کو آگے بڑھایا جاتا ہے وہ اردب نہیں کہلاتا، اسے ابن الوقت کہتے ہیں، ہمارے ہاں ابن الوقتوں کی کوئی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں والا معاملہ ہے۔
سیاسی بساط پر میاں نواز شریف کو مات دینے کے لیے ابن الوقتوں کی تلاش شروع کی گئی جس میں خاطر خواہ کامیابی نصیب ہوئی، بہت سے نون لیگی جو پہلے ہی پرتول رہے تھے، پرواز کر گئے مگر میاں نواز شریف کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی۔ محبت حد سے بڑھ جائے تو عقیدت بن جاتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عقیدت نفرت کی حدوں میں کب داخل ہوتی ہے؟۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے بارے میں ایسی داستانیاں سنائی گئیں جو ہوش اڑانے کے لیے کافی تھیں مگر عوام نے کسی بھی داستان پر یقین نہیں کیا کیوں کہ عوام یہ باور کرچکے ہیں کہ سیاست میں شرافت کی کوئی اہمیت نہیں کوئی گنجائش نہیں۔ اقتدار کو طول دینا اور مخالفین کو زک پہنچانا ہی سیاست ہے جو رہنما ان خوبیوں پر پورا اترتا ہے وہی عوام کا پسندیدہ لیڈر ہوتا ہے گویا سیاست میں کردار کشی، کردار سازی کا سبب بنتی ہے اور جہاں تک کردار کا تعلق ہے تو ایسے شخص کے کردار کو اہمیت دی جاتی ہے جو غلط بیانی اور جھوٹ پر قائم رہنے کا ہنر جانتا ہے۔ بقول ظفر اقبال:۔
جھوٹ بولا ہے ظفر تو اس پر قائم بھی رہو
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے
ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے:۔
دیا گیا ہے جو نقشہ سفر کا اس میں سے
بڑی صفائی سے منزل نکال دی گئی ہے
حالیہ انتخابات سے ملک کے استحکام اور قوم کو بہت سے خوش آئند خواب دکھائے گئے ہیں مگر آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ ہمارے سیاسی سفر میں منزل کا کوئی نام و نشان نہیں۔