نواز شریف کیس، کیا تھا، کیا بنا دیا گیا

454

احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں نوازشریف، ان کی صاحب زادی مریم نواز اور ان کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو بالترتیب 10 سال، 7 سال اور ایک سال قید اور جرمانے کی سزا سنا دی گئی ہے فیصلے کے بعد نوازشریف نے وطن واپسی کا اعلان بھی کردیا ہے وہ تیرہ جولائی کو لندن سے لاہور پہنچ رہے ہیں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے تینوں کو 10، 10 سال کے لیے عوامی عہدوں کے لیے نااہل بھی قراردے دیا ہے جب کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس نمبر 16، 16اے، 17 اور 17 اے کو بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نواز شریف کے خلاف پاناما ریفرنس بنا تو عدالت عظمیٰ کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس نے اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی تو عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو اپنے بیٹے کی فرم سے لی جانے والی تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا اور کسی بھی عوامی نمائندگی کے عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا اور نیب کو حکم دیا کہ احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا جائے۔
احتساب عدالت کے فیصلے کو سابق چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت ملک کے معروف قانون دان تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ احتساب عدالت میں نیب کی جانب سے جتنے بھی شواہد پیش کیے گئے ان میں پختگی نہیں تھی پورے کیس میں پیش کی جانے والی کسی بھی دستاویز میں یہ نہیں بتایا کہ جائداد نواز شریف کے نام ہے۔
نواز شریف کے خلاف کرپشن کے الزامات تھے جنہیں ثابت کرنا تھا مگرکرپشن کے الزمات نیب نے ثابت نہیں کیے اور ایک بھی شہادت پیش نہیں کی،مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجا ظفر الحق، ایس ایم ظفر نے نہ جانے کیوں فیصلے کی تعریف کی ہے۔قانون کی نظر میں یہ بہت ہی کمزور فیصلہ ہے ایک طرف توکرپشن سے بری کیا اور دوسری جانب سزا دے دی۔ اس کیس میں مریم کے حوالے سے کیلبری فونٹ کے لیے بھی گواہ پیش ہوا فیصلے میں اس کے بیان کا ایک لفظ نہیں لکھا گیا لیکن مریم کو بھی سزا دے دی قانون کی نظر میں فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اعلیٰ عدلیہ میں جاکر یہ فیصلہ تبدیل ہوسکتا ہے قانون یہ کہتا ہے الزامات کو سچ ثابت کرنے کے لیے شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جج کے سامنے ایک قاتل بھی آئے اور وہ اعتراف جرم بھی کرلے تب بھی مقدمے کا فیصلہ شہادتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس فیصلے سے یہی لگتا ہے قانون اور فیصلے صرف غریب کے لیے ہوتے ہیں مراعات یافتہ طبقہ کو گرم ہوا نہیں لگتی ظاہر اب یہ کیس عدالت عالیہ اور پھر عدالت عظمیٰ جائے گا نوازشریف کے لیے داد رسی اور قانونی مزاحمت کے یہی راستے ہیں جنہیں وہ اختیار کرسکتے ہیں۔ ان کے پاس قانونی اور سیاسی ہر دو راستے موجود ہیں جن پر وہ بیک وقت سفر کریں گے۔ قانون کے تحت نوازشریف، مریم نواز اور محمد صفدر 10روز کے اندر اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق رکھتے ہیں نوازشریف کے وکلا نے اپیل دائر کرنے کا مشورہ دیا ہے جسے انہوں نے قبول بھی کرلیا ہے اپیل دائر کرنے کے لیے فیصلے کی مصدقہ نقل بھی حاصل کرلی گئی ہے۔
ایسے سیکڑوں عدالتی فیصلے موجود ہیں جن میں ملزم کے سرنڈر کے بعد ہی اپیل کو قابل سماعت گردانا گیا ہے، ایسی صورت میں نوازشریف اور دیگر ملزموں کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ گرفتاری پیش کریں یا پھر اپیلٹ کورٹ میں پیش ہوں۔ بعض قانونی ماہرین کے مطابق 174صفحات پر مشتمل احتساب عدالت کے فیصلے میں نوازشریف اور ان کے شریک ملزموں کے خلاف قومی خزانے کی لوٹ مار اور کرپشن کے ذریعے مال بنانے کے الزام کے تحت سزا نہیں دی گئی بلکہ نیب آرڈیننس کے سیکشن 9(اے) 5اور 12 کے تحت آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے اور زیرکفالت افراد کے نام پر جائدادیں بنانے کے الزام میں سزا دی گئی ہے۔ نوازشریف اور شریک ملزموں کو نیب آرڈیننس کے سیکشن 9(اے) 4 کے تحت سزا نہیں سنائی گئی، اس سیکشن میں کہا گیا ہے کہ اگر بددیانتی، غیر قانونی ذرائع اور کرپشن سے ملزم نے یا اس کے خاندان یا زیر کفالت افراد نے اثاثے بنائے ہوں تو وہ اس قانون کے تحت مجرم اور سزا کے مستحق ہوں گے تاہم انہیں جو سزا دی گئی ہے وہ نیب آرڈیننس کے تحت ہی دی گئی ہے۔ آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنا بھی کرپشن کے زمرہ میں آتا ہے تاہم حاکم علی زرداری کیس میں اعلیٰ عدالتیں قرار دے چکی ہیں کہ آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے کرپشن کو ثابت کرنا استغاثہ کی ذمے داری ہے۔ نوازشریف کے وکیل کے دلائل میں بنیادی نکتہ ہی یہ تھا کہ استغاثہ اسے کرپشن کا کیس ثابت نہیں کرسکا۔ نواز شریف کے وکلا کے بقول ملزم کے لیے اثاثوں کا قانونی جواز پیش کرنا اسی صورت میں لازم ہوگاجب استغاثہ اپنا کیس ثابت کرچکا ہو۔ احتساب عدالت نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا تاہم ملزموں کے پاس اپیل میں یہ نکتہ اٹھانے کا موقع موجود ہے۔
ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بحق سرکار ضبط کرنے کے عدالتی حکم کا تعلق ہے یہ ایک قانونی تقاضا تھا جسے پورا کیا گیا، عملی طور پر اپارٹمنٹس کی ضبطی کے حکم پر عمل درآمد جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کے پابند ہوں۔ برطانیہ اور پاکستان کی عدلیہ کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت موجود ہے جس کے تحت بچوں کی تحویل کے معاملات میں دونوں ممالک کی عدالتیں ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں تاہم اس مفاہمتی یاد داشت میں دیگر کوئی معاملہ شامل نہیں ہے۔ پاکستانی سرکار کو اپارٹمنٹس کی ضبطی کے عدالتی حکم پر عمل درآمد کے لیے برطانوی عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا۔ ایسے مقدمات جن میں سیاست دان ملوث ہوں ان میں برطانیہ سمیت یورپی ممالک کی عدالتیں عدم تعاون کا رجحان رکھتی ہیں۔ علاوہ ازیں شریف فیملی کی طرف سے احتساب عدالت کے اس حکم کو غیر موثر بنانے کے لیے برطانیہ میں یہ موقف بھی اختیار کیا جاسکتا ہے کہ ابھی ان کے پاس پاکستان میں ہائی کورٹ اور پھر عدالت عظمیٰ میں اپیل کا حق موجود ہے۔