مستونگ و بنو ں دھماکوں کے باوجود ن لیگ کا روڈ شو ناکام ہوگیا

202

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) عام انتخابات کی تاریخ قریب آنے کے ساتھ گہما گہمی اور شور شرابا ہی نہیں بلکہ بم دھماکوں کے واقعات کے ساتھ خوف و ہراس میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ جمعہ کو بلوچستان کے ڈسٹرکٹ مستونگ اور کے پی کے بنوں میں خودکش بم دھماکوں کے 2 واقعات میں مجموعی طور پر100سے زائد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ صرف مستونگ کے واقعے میں انتخابی امیدوار سراج رئیسانی سمیت 85سے زاید افراد اپنی جانوں سے گئے جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ کے قائد و سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز احتساب عدالت سے ملنے والی سزائیں بھگتنے کے لیے لندن سے رات 9 بجے لاہور پہنچ گئے جہاں سے انہیں نیب کے حکام نے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل پہنچادیا گیا ہے۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی کی واپسی سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ” عوامی عدالت ” نواز شریف ان کی بیٹی اور ان کے داماد کی سزاؤں اور قید کے خلاف ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف کے استقبال کے لیے پہنچنے والا یہ ” ہجوم ” انہیں سزاؤں سے نہیں بچا سکتا نا ہی انہیں سیاسی طور پر دوبارہ عوامی عہدوں کے لیے اہل قرار دلا سکتا ہے۔ اس لیے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگی کارکنوں نے لاہور میں جمع ہوکر صرف اپنے قائد نواز شریف سے اظہار محبت کیا اور اس مقصد کے لیے بم دھماکوں کے خدشات کو بھی نظر انداز کیا۔ مسلم لیگ نواز کے اس طاقت کے اظہار والے ” روڈ شو ” کی خاص بات یہ بھی تھی کہ مسلم لیگ کے کسی لیڈر کا کئی قریبی رشتے دار موجود نہیں تھا جبکہ لاہور ائرپورٹ پر صرف 2 درجن افراد افراد پہنچنے میں کامیاب ہوسکے تھے۔ سابق وزیر اعظم اور ان کی بیٹی کو جہاز سے اترتے ہی گرفتار کرکے خصوصی طیارے کے ذریعے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا ہے۔ اس طرح نواز شریف کے حمایتیوں کا شو ناکام ہوگیا اس سے مسلم لیگ اور اس کے کارکنوں کو کوئی بھی سیاسی فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہی ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ناکام روڈ شو کے بعد 25 جولائی کو عام انتخابات میں مسلم لیگ کو کتنے ووٹ اور کتنی سیٹیں ملتی ہیں ؟۔ رہی بات دہشت گردی کے واقعات کی ، اس سے نمٹنے کے لیے سیکورٹی ادارے یقیناًمزید سخت اقدامات کررہے ہوں گے۔جس کے بعد انتخابات کا انعقاد یقینی اور منصفانہ ہوگا۔