وضاحتیں مگر کیوں؟

313

جس دور میں سچ بولنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے اور سچ جان و مال اور عزت و آبرو کی قیمت پر بولنا پڑے تو جان رکھو کہ اس دور میں سچ بولنا ہر فرد و بشر پر فرض ہوجاتا ہے۔ پاکستان ہی کیا پوری دنیا جب سمجھ رہی ہو اور کہہ رہی ہو کہ حکومتی معاملات میں ’’خلائی مخلوق‘‘ کا واضح کردار ہے تو پھر اس کی تردید جتنی بھی کی جائے کم ہے جب کہ خود تردید کرنے والوں کا ایک ایک لفظ تردید کی نفی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ لہٰذا جتنی وضاحتیں در وضاحتیں کرتے جاتے ہیں اتنا ہی ان کا ہر بیان چغلی کھا رہا ہوتا ہے کہ ہر معاملے میں ہم ہی ہیں اور پاکستان کا ہر ادارہ اور ایک مخصوص سیاسی پارٹی جس زبان میں بات کر رہی ہے وہ خلائی مخلوق ہی کا انداز بیان ہے۔ وضاحتیں خود اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ دال میں ضرور کچھ نہ کچھ کالا ہے۔
کیا 2013 کے الیکشن کے فوراً بعد اسلام آباد کا گھیراؤ اور دھرنے بنا اشارہ ابرو ممکن تھے؟۔ کیا اس ساری کہانی کا اظہار خود آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ’’پاشا‘‘ صاحب خود نہیں کرتے رہے۔
آئی ایس پی آرکے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کہتے ہیں کہ: ’’انتخابات وقت پر ہوں گے‘‘۔ تو کیا انتخابات فوج کرارہی ہے یا کس نے یہ بات کہی ہے کہ افواج پاکستان انتخابات کرانے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ فوج کا کام کسی بھی جمہوری ملک میں نہ تو انتخابات کرانا ہوتا ہے، نہ اس کی تاریخ دینا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ انتخابات کو التوا کا شکار کرے۔ یہ سارے کام ہر جمہوری ملک میں الیکشن کمیشن کے ہوا کرتے ہیں۔ ترجمان مزید کہتے ہیں ’’انتخابات سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، فوج غیر سیاسی اور غیر جانبدار رہے گی، 25جولائی کو عوام جمہوری عمل آگے بڑھائیں گے، ہماری جانب سے مسٹر اے، بی یا سی آئیں، عوام جسے منتخب کریں گے قبول ہوگا‘‘۔ کیا ان تمام وضاحتوں کی ضرورت تھی؟۔ پھر یہ الفاظ کہ اے بی سی جو بھی وزیراعظم ہوگا وہ ہمیں قبول ہوگا والی بات کچھ عجیب سی نہیں؟۔ کیا رد و قبول کی کوئی گنجائش کسی بھی حکومت کے متعلق کوئی ادارہ رکھتا ہے؟۔ دنیا کے ہر ملک میں سارے ادارے حکومت کے تحت ہی آتے ہیں اور کوئی ایک محکمہ بھی کسی حکومت کو ’’رد یا قبول‘‘ کرنے یا کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیا یہ الفاظ اس بات کی غمازی نہیں کر رہے کہ پاکستان میں کوئی ادارہ ایسا بھی ہے جو حکومت کو قبول بھی کر سکتا ہے اور رد بھی؟۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ: ’’ٹاک شوز میں فوج کیخلاف جیسی زبان استعمال ہوتی ہے وہ برداشت کررہے ہیں، سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتے‘‘۔ ایک تو یہ بات کہ پاکستان میں جتنے بھی آزاد چینلز ہیں ان میں سے کوئی ایک آدھ چینل ہوگا جس میں آپ کے خلاف بات کرنے کی ہمت ہو رہی ہوگی ورنہ تو تمام چینل آپ ہی کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ آپ تو کسی بھی ریاست یا حکومت کا ایک ادارہ ہیں اگر اس کے خلاف کوئی بات ریاست کی کمزوری کا باعث بن سکتی ہے تو کیا حکومت کے خلاف زہر افشانی سے ریاست طاقتور ہوتی ہے۔ جب آپ کو حکومت کے خلاف کوئی بات ریاست کے خلاف نہیں لگتی تو محض ایک ادارے کے خلاف بات ریاست کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے؟۔ کہا گیا ہے کہ: ’’خلائی مخلوق سیاسی نعرہ ہے‘‘ تو جناب ’’جیپ‘‘ کو آپ سے منسوب کرنا بھی تو ایک سیاسی نعرہ ہی ہے پھر جیپ کے سلسلے میں اتنی اہم پریس کانفرنس میں وضاحتیں پیش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست میں ایسی بہت ساری باتیں ہوا ہی کرتی ہیں لیکن ان باتوں کی پس پردہ بھی کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہوتی ہے۔ کیا جیپ کے نشان والے چودھری نثار کا یہ بیان کہ: ’’میں نواز شریف کو ایسے ہی حالات سے بچانا چاہتا تھا جن سے وہ گزر رہے ہیں‘‘۔ کی کیا کوئی اہمیت نہیں؟۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ: ’’ہماری کوئی سیاسی جماعت نہیں، صرف پاکستان کے عوام ہی ہمارا مفاد ہے، عوام کے لیے ضروری ہے الیکشن بہت اچھے طریقے سے ہوں، جتنی تعداد میں ووٹ ڈلیں اتنے ہی باہر آئیں تو اتنا ہی شفاف الیکشن ہوگا، عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ ووٹ ڈالیں، جو پارٹی اور لیڈر انہیں پسند ہے کسی خوف کے بغیر اسے ووٹ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ووٹر سمجھتے ہیں یہ ان کا نمائندہ ہے تو ووٹ ڈالیں‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک افواج کی کوئی سیاسی جماعت نہیں لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ افواج پاکستان، پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھاتی رہی ہیں، سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کا سبب بنتی رہی ہیں، جماعتی اتحاد تشکیل دیتی رہی ہیں اور عوامی رائے ہی کو نہیں آئین پاکستان کی دھجیاں بھی بکھیرتی رہی ہیں۔ کیا مجیب کو اقتدار منتقل کرنے میں لیت و لعل سے کام نہیں لیا گیا، کیا نواز شریف کوضیا الحق کے دور میں متعارف نہیں کرایا گیا۔ کیا غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں جونیجو کو وزیر اعظم نہیں بنایا گیا اور ایک نام نہاد اسمبلی سے آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم نہیں کرائی گئیں۔ پرویز مشرف کے دور میں ق کی حکومت کو بنانے کے لیے ’’پیٹریاٹ‘‘ نہیں بنائی گئی۔ کیا شوکت عزیز کو درآمد کرکے وزیر اعظم بنانے کے لیے ظفر اللہ جمالی کو نہیں ہٹایا گیا۔ کیا یہ سب کچھ بقول آپ کے ’’اللہ کے بندے‘‘ نہیں کرتے رہے۔ پھر بھی اگر یہ کہا جائے کہ پاک فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تو کتنی عجیب سی بات ہوگی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ: ’’کوئی ایک ایسا الیکشن بتایا جائے جس سے پہلے مختلف جماعتوں کے لوگوں نے پارٹی تبدیل نہ کی ہو، بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں دوسری جماعتوں کو نیچا دکھا کر الیکشن لڑنے کی کوشش کرتی ہیں‘‘۔ ترجمان کی اس بات میں وزن ہے کیوں کہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ ارکان کے بازار سجائے جاتے رہے ہیں اور اونچی اونچی بولیاں لگائی جاتی رہی ہیں۔ جہاں یہ بات درست ہے وہاں جونیجو لیگ اور پیٹریاٹ بھی ایک حقیقت ہیں۔ نیز کراچی میں تو حد ہی کی گئی ہے۔ جن جن کو بھی سنگین جرائم کے الزام میں رینجرز پکڑ کر لیجاتی رہی ہے وہ دوسری پارٹیاں جوائن کرکے پاک صاف قرار دیے جاتے رہے ہیں۔ یا الزامات جھوٹے تھے یا دوسری پارٹیوں میں شمولیت پر ان کو پاک صاف قرار دینا غلط ہے۔ ایسے چند نہیں ہزاروں ہیں جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچوں کی طرح معصوم بن کر پھر رہے ہیں۔ کیا یہ سب گرفتاری سے پہلے کسی دوسری پارٹی میں منتقل ہوئے ہیں؟۔ لہٰذا خود کو ہر معاملے سے بری الذمہ سمجھ لینا انصاف کے خلاف ہے۔
تر جمان کا کہنا ہے کہ: ’’پاک فوج گزشتہ 15 سال میں بہت اہم اور بقائے پاکستان کی جنگ لڑرہی ہے، جب آپ دل یا دماغ کی سرجری کررہے ہوں تو چھوٹی بیماریوں کی طرف توجہ نہیں دی جاتی نیز ان سب چیزوں کا مقصد ہے کہ فوج کی توجہ مین ایشوز سے ہٹائی جائے‘‘۔ یہی بات ایک عام فرد سوچتا ہے کہ آخر وہ کیا مجبوری ہے جس کی وجہ سے پاک فوج پولیس، بلدیاتی نمائندوں، مجلس قائمہ یا سینیٹ کے ’’چھوٹے چھوٹے‘‘ غیر اہم معاملات میں دخل دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ آپ کی نگاہوں میں اہم اور غیر اہم کیا ہے یہ آپ جانیں لیکن آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا ہندوستان کی را کے سابق سربراہ کے ساتھ راتیں سیاہ کرنا اور دن پاکستان کے ساتھ غداری میں گزارنا جیسے معاملے پر ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آنے کو کس خانے میں فٹ کیا جائے۔ کہاں گئی وہ کتاب اور کہاں ہیں صاحب کتاب؟۔ اس راز سے پردہ کون اٹھائے گا۔ یہی بات اگر کسی حاضر یا سابق سر براہ حکومت کر بیٹھتا تو سرجری کے بجائے پورا سر ہی اتار دیا گیا ہوتا۔