اسلام آباد ( میاں منیر احمد ) پاکستان میں عوامی جمہوریت کے بجائے خاندانی جمہوریت کا نظام مستحکم ہوچکا ہے، پنجاب کے لغاری، دریشک، مزاری، ٹوانہ، میلہ، چودھری، مانیکا، وٹو، سندھ کے بھٹو،زرداری، جتوئی، جاکھرانی، کے پی کے بلوچستان کے اچکزئی، رند، رئیسانی، باروزئی، بنگش جیسے روایتی خاندانوں کے مسلسل اقتدار اور اختیار کے مالک رہنے سے زراعت، صنعت، تجارت، حکومت، سیاست، سول ملٹری بیوروکریسی میں اہم پوزیشن پاچکے ہیں، ہرانتخابات میں یہی خاندان پاکستان میں جمہوریت اور خاندانوں کے نام پر اقتدار کی جنگ لڑتے ہیں، ہر5 سال کے بعد اس جنگ میں ووٹوں کے بجائے نوٹوں کا مقابلہ ہوتا ہے جس میں عوام ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، اس جنگ میں2 سو خاندانوں کے افراد بار بار منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں، پنجاب میں جن معروف خاندانوں کے درمیان انتخابی جنگ لڑی جاتی ہے ان کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا وہ ہوا کا رخ دیکھ کر وفاداریاں تبدیل کرلیتے ہیں، اس وقت چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے 200خاندان انتخابی سیاست پر قابض ہیں جنہیں تحریک انصاف نے الیکٹ ایبل کا رنگ چڑھادیا ہے اور ان کی اجارہ داری تسلیم کرلی ہے، اس نظام نے انتخابی عمل کو اس قدر مہنگا کردیا ہے کہ متوسط طبقے کا پڑھا لکھا شخص انتخاب لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، پاکستان 20کروڑ عوام کے بجائے مخصوص خاندانوں کا پاکستان بن چکا ہے، عمران خان کے حالیہ فیصلوں نے اقتدار میں آنے کے لیے روایتی خاندانوں کے سامنے سرنڈر کردیا ہے، عوام دشمن اُمیدواروں کے تعاون سے عمران خان وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں، الیکٹ ایبل کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کرکے عمران خان نے تبدیلی کا موقع کھو دیا ہے۔ ’’تبدیلی‘‘ اور ’’نئے پاکستان‘‘ کا خواب پورا نہیں ہوسکتا، ملک کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ، ان خاندانوں کی کرپشن اور لوٹ مار سے تنگ آچکا ہے لیکن انہیں کوئی انقلابی لیڈر میسر نہیں ہے، حالیہ انتخاب میں شریک تمام سیاسی جماعتیں اور اتحاد استحصالی خاندانوں کے سایے میں چل رہے ہیں حالانکہ یہ استحصالی خاندان ایک دھکے کی مار ہیں۔