ملک میں عام انتخابات کی گہما گہمی کے دوران دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں ایسے سانحات کی یاد تازہ ہونا فطری بات ہے۔ کمسنی میں یتیم ہوجانے والے بچوں کے لیے اپنے والد کی ناگہانی موت ہی بڑا سانحہ ہوتی ہے۔ وہ اپنے والد کے غم کو کیسے بھلا سکتے ہیں۔ میں آج ایک ایسی ہی بیٹی کے خط کو جو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے نام لکھا گیا ہے من وعن قارئین کی نذر کررہا ہوں۔ اس کا مقصد یتیم بیٹی کی آواز چیف جسٹس تک پہنچانا ہے۔ یہ خط میاں چنوں سے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے نام نیب کے شہید افسر کامران فیصل کی بیٹی ایمن نے کچھ یوں لکھا ہے۔
انکل ثاقب!
میں ایمن بنت کامران فیصل، ہر دن جیتی ہر دن مرتی، آپ سے مخاطب ہوں، وہی کامران فیصل جسے پانچ سال پہلے راجا پر ویز اشرف و دیگر کے خلاف 100 ارب سے زاید کی کرپشن کے کیس میں دھونس دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانے اور وقت کے فرعونوں کی کرپشن کو تشت ازبام کرنے کی پاداش میں ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا تھا۔ تب میں کلاس نرسری میں تھی اور آج کلاس فور میں ہوں۔ لوگ تو میرے بابا کو بھول چکے ہیں لیکن آپ یقیناًنہیں بھولے ہوں گے، میری سہیلی نے مجھے بتایا کہ آپ نے حال ہی میں17 سال تک انصاف ڈھونڈنے والی ایک بیوہ خاتون کو انصاف دلایا ہے، آپ نے جب سے خود کو بابے رحمتا کہا، بلا امتیاز اور فوری انصاف کی یقین دہانی کروائی، ننھی زینب کے قاتلوں کو عبرت کا نشان بنانے کا عندیہ دیا، تب سے مجھے یہ اُمید ہو چلی ہے کہ آپ میرے بابا کے قاتلوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔ ننھی زینب کی کچرے کے ڈھیر پر پڑی لاش میں آپ کو اپنی بیٹی ضرور دکھائی دی ہوگی، کیا بتاؤں انکل ننھی زینب تو ایک بار مر چکی، آپ کی یہ بیٹی تو روزمرتی اور روز جیتی ہے۔
’’کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بُری بلا ہے
مجھے کیا بْرا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا‘‘۔
آپ کے پیش رو نے تو آپ کو کامران فیصل قتل کیس کا نہیں بتایا ہوگا۔
انکل! میں آپ کو بتاتی ہوں کہ اس کیس کی فائل کس سرد خانے میں پڑی ہے، انکل میرے بابا کو 2013 میں شہید کیا گیا میری ماما نے مجھے بتایا کہ بابا کی شہادت کو وقت کے فرعونوں نے خود کشی کا نام دیا لیکن فرانزک رپورٹ نے قبر کشائی کے بعد اعتراف کیا کہ یہ قتل تھا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ 2013 میں عدالت عظمیٰ میں جمع ہوئی، اور آج تک اس کیس کی باری نہیں آئی۔ میں نے جب اپنی سہیلی کو بابا کی پانچویں برسی کا بتایا تو اس نے ڈھارس بندھوائی اور کہا کہ یہ برسی آنسوؤں سے مت مناؤ، آؤ انکل ثاقب کو بتا ئیں، وہ کچھ بھی ہو جائے تمہارے بابا کو ضرور انصاف دیں گے۔ وہ تو یہ بھی کہہ رہی تھی کہ اس نے کہیں پڑھا ہے کہ معاشرے ظلم پر تو قائم رہ سکتے ہیں لیکن نا انصافی پر نہیں۔
انکل اگر یہ ظالم آپ سے بھی مضبوط ہیں تو پھر میں اگلا خط سب سے بڑی اور اللہ کی عدالت میں لے جاؤں گی، اللہ میاں ظالموں کی پکڑ سے پہلے آپ سے ایک بار یہ ضرور پوچھیں گے کہ میں نے آپ کو انصاف کی سب سے بڑی مسند پر اس لیے بٹھایا تھا کہ آپ مظلوم کی داد رسی کریں، کسی کی آہ میرے عرش تک نہ پہنچنے پائے، اگر یہ سوال آپ سے اللہ میاں نے ایک بار بھی پوچھ لیا کہ زینب، ایمن جیسی ہزاروں مظلوم آوازوں پر آپ نے جنبشِ قلم اور انصاف کے علم سے کتنا انصاف کیا؟۔۔۔ آپ کے پاس کیا جواب ہوگا؟
مگر انکل ثاقب مجھے یقین ہے کہ آپ اللہ کو باآسانی جواب دے دیں گے اگر آپ نے میری گزارش پر توجہ دے کر انصاف کے تقاضے پورے کیے تو۔ اللہ حافظ
انصاف کی منتظر آپ کی بیٹی ایمن بنتِ کامران فیصل۔
ایمن کی یہ تحریر چیف جسٹس ثاقب نثار کے نام صرف ایک خط نہیں بلکہ ایمن سمیت پوری قوم کے لیے ایک اچھی امید بھی ہے۔ ایس امید جو کہ قوم کو ملک میں ہر ایک کے لیے انصاف کی خوشخبری سنائے گی۔ جب یہ خوشخبری قوم کو ملے گی تو یہ کسی ڈیم کی تعمیر کی خوشی سے کم نہ ہوگی۔ چلیے اب انتظار کرتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب معصوم ایمن کی عرضی پر کیا کچھ کرتے ہیں!۔