یہ عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں ہے

430

معزول وزیرِ اعظم نواز شریف، اُن کی صاحبزادی اور داماد کو احتساب عدالت کی طرف سے سزا ہوئی، اس مقدمے کی تفصیلات ہمارا موضوعِ بحث نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم ایسے واقعات سے عبرت حاصل کریں اور اپنی اصلاح کی تدبیر کریں۔ لیکن بعض سیاسی جماعتوں نے اس پر جشن منایا اور مٹھائیاں بانٹیں۔ پس ہماری سیاسی تاریخ یہی ہے اور تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ جب 1977میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو معزول کیا گیا اور پھر سزائے موت دے دی گئی، تو اُس وقت بھی کچھ لوگوں نے مٹھائیاں بانٹی تھیں، پھر یہی مناظر ہم نے نوے کی دہائی میں کئی بار دیکھے۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی شخصیت مجموعۂ اَضداد تھی، انہوں نے اپنے سوشلزم کے نعرے کے تحت کسی حکمتِ عملی، تدبیر اور تیاری کے بغیر بڑی صنعتیں، بینک اور انشورنس کمپنیاں قومی ملکیت میں لے لیں اور پھر بیوروکریسی نے ان اداروں کو تباہ وبرباد کردیا۔ ملک میں صنعتی ترقی کا پہیہ رُک گیا، بلکہ رول بیک ہوگیا، اپنے دورِ اقتدار کے آخر میں انہوں نے کپاس کی جِنِنگ کے کارخانے اور فلور ملیں بھی قومی ملکیت میں لے لیں۔ اسی طرح تعلیمی ادارے بھی قومی ملکیت میں لے لیے گئے، اس اقدام سے بعض خوش نصیب افراد کو ملازمتیں تو مل گئیں اور یہ اچھی بات ہے، لیکن تعلیم کا معیار بھی تباہ وبرباد ہوگیا، یہ اُن کے منفی پہلو تھے۔ کراچی میں تعلیمی نظام کے حوالے سے اسکول کالج سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک بربادی میں جو کسر رہ گئی تھی، وہ جناب الطاف حسین نے پوری کردی اور آج تک اس کی تلافی نہیں ہوسکی، کیوں کہ تباہی ایک لمحے میں بھی آسکتی ہے، لیکن تعمیرِ نو اور بحالی کے لیے کئی عشرے چاہییں، بشرطیکہ قیادت میں اس کے لیے اخلاص، عزمِ صمیم اور بصیرت ہو، جب کہ دور دور تک اس کے آثار نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ملک میں سب سے بڑی اور سب سے نفع بخش صنعت بن گئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم مقبول عوامی لیڈر تھے، لیکن اُن کے اندر کے جاگیردار نے انہیں ناکامی سے دوچار کردیا، وہ کسی بھی صورت میں مخالفت برداشت کرنے کے روادار نہیں تھے اور اُن کی اِسی روش نے اُن کے مخالفین میں اضافہ کردیا، سرمایہ دار اور صنعت کار تو پہلے ہی اُن کے مخالف ہوچکے تھے اور ایٹمی پروگرام کی وجہ سے وہ امریکا کے لیے بھی ناپسندیدہ قرار پائے۔
آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے کریڈٹ پر بعض بہت اچھے کام بھی ہیں، جن میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا 1973کا متفقہ دستور، جس پر سردار خیر بخش مری کے سوا دستور ساز اسمبلی کے تمام ارکان کے دستخط ثبت ہیں اور بہت سی ترمیمات کے باوجود یہی دستور آج قوم کو جوڑے ہوئے ہے، ورنہ تشتُّت وتفریق اور انتشار کے موجودہ ماحول میں آج متفقہ دستور کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح اس دستور میں قرآن وسنت کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے اور پھر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ہی کے دور میں ہماری پارلیمنٹ نے دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے اتفاقِ رائے سے عقیدۂ ختمِ نبوت کوآئینی تحفظ دیا، منکرینِ ختم نبوت اور مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے تمام گروہوں کو خارج از اسلام قرار دیا، یہ ریاستی سطح پر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کے بعد اسلامی تاریخ میں بہت بڑا کارنامہ ہے۔ لبرل عناصر، جن میں پیپلز پارٹی کے لبرلز بھی شامل ہیں، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے اس اِقدام کے آج بھی ناقد ہیں، مگر ہمارے نزدیک آخرت میں اُن کا یہی کارنامہ شاید اُن کے لیے نجات کا باعث بن جائے۔ بلاشبہ اس کارنامے میں اُس وقت کی اسمبلی میں موجود علمائے کرام کا بہت بڑا کردار ہے، جو آج بھی اُن کے لیے سرمایۂ افتخار ہے، لیکن چوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت تھی، اس لیے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حمایت کے بغیر اس ترمیم کا پاس ہونا عملاً ممکن نہ تھا، پیپلز پارٹی کے لبرل عناصر وقتاً فوقتاً گوہر افشانی کرتے رہتے ہیں کہ بھٹو مرحوم نے دباؤ میں یہ کام کیا، یقیناًایسا ہی ہوگا۔ لیکن قوم کا نباض وہی قائد ہوتا ہے جو قوم کی امنگوں اور آدرش کو سنے، سمجھے اور قبول کرے، اگر سیاسی قائد میں یہ صلاحیت نہیں ہے تو جمہوریت بے معنی اور بے فیض چیز بن کر رہ جاتی ہے۔
انہوں نے اتوار کی ہفتہ وار تعطیل کو ختم کر کے جمعۃ المبارک کی تعطیل کو رائج کیا، جسے بعد میں نواز شریف صاحب نے اپنے دورِ اقتدار میں ختم کردیا اور اس پر دینی لوگوں کے احتجاج کو پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دی، شاید اُن کی گرفت کے منجملہ اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہو۔ جناب چیف جسٹس آف پاکستان آج بہت سے قومی معاملات کو براہِ راست حل کر رہے ہیں، اُن سے گزارش ہے کہ اپنے منصبی اختیارات سے کام لے کر جمعۃ المبارک کی تعطیل کو بھی بحال کرادیں۔ اسی طرح ایٹمی پروگرام کا آغاز بھی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا کارنامہ ہے، سو یہ اُن کے عہدِ اقتدار کے روشن پہلو ہیں۔ اسی طرح ایٹمی دھماکا کرنے کا اعزاز نواز شریف صاحب کو ملا، کوئی اتفاق کرے یا اختلاف، ملک بھر میں موٹرویز کا جال بچھانے کا اعزاز بھی اُنہی کو حاصل ہے۔
جنابِ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اللہ تعالیٰ جزا دے کہ ختمِ نبوت کے حوالے سے پسِ پردہ سازش کو انہوں نے بے نقاب کیا۔ اب یہ سب پر عیاں ہوچکا ہے کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی کوئی بھی سیاسی جماعت اس سے بری الذمہ نہیں ہے، جب کہ سینیٹ میں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے ارکان نے جے یو آئی کے حافظ حمد اللہ جان کی ترمیم کو تیرہ کے مقابلے میں چھتیس ووٹوں کی اکثریت سے ردّ کیا تھا، میں یہ بات بہت پہلے لکھ چکا تھا، لیکن اب یہ عدالتی فیصلے کا حصہ ہے۔ مجھے راجا ظفر الحق کی رپورٹ کی نقل تو مل چکی ہے، لیکن تفصیلی فیصلہ ابھی دستیاب نہیں ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس مسئلے پر بھی جے آئی ٹی بناکر کسی امتیاز کے بغیر ذمے داران کا تعیّن کیا جائے، کیوں کہ قانون سازی تمام پارلیمنٹیرین کی مشترکہ ذمے داری ہے اور پارلیمنٹ کا کوئی رکن اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ قانون سازی کھلے اجلاس میں ہوتی ہے، اگر پارلیمنٹ کے ارکان قانون کے مسوّدے کو پڑھنے کے روادار نہیں ہیں یا اُسے سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے، تو اُن کے پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اُس وقت کے وزیرِ قانون زاہد حامد کو وزارت سے برطرفی کی صورت میں سزا مل چکی ہے، لیکن اب تمام تر تعصّبات سے بالا تر ہوکر صرف اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مکرّم ؐ کی رضا کے لیے اس مسئلے کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے، ورنہ سمجھا جائے گا کہ صرف حکومتِ وقت کو ہدف بنانا مقصود تھا۔ اب اُس وقت کی حکومت اقتدار میں نہیں ہے، اس لیے یہ الزام بھی نہیں لگایا جاسکتا کہ حکومت حقائق کو چھپا رہی ہے۔ جنابِ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے فیصلے کا یہ حصہ بھی اہم ہے کہ انہوں نے قادیانیوں کو ’’احمدی‘‘ کے عنوان سے اپنی پہچان بتانے سے روک دیا ہے، اب دیکھا جائے گا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس عدالتی حکم کی پاسداری کرتے ہیں یا نہیں۔
ہماری گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو جشن منانے کے بجائے کسی کے برے انجام کو دیکھ کر عبرت پکڑنی چاہیے،
سبق حاصل کرنا چاہیے، جشن منانا اور مٹھائیاں بانٹنا سنگ دلی اور کھلنڈرے پن کی علامت ہے۔ ماضی میں جو ایسا کرتے چلے آئے ہیں، انہیں بھی اُسی انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ جن پرگزر رہی ہے، انہیں بھی صدقِ دل سے توبہ کرنی چاہیے اور اپنی تقصیرات اور خطاؤں پراللہ تعالیٰ کے حضورمعافی مانگنی چاہیے۔ کسی سے فی الواقع کوئی غلطی ہوئی ہے، تو اُس کا جواز تلاش کرنے کے بجائے اُسے تسلیم کرکے اُس کا ازالہ کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہر وقت ہر مومن کے ذہن میں تازہ رہنا چاہیے: ’’اللہ کسی شخص پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، ہر شخص کے لیے اُس کے نیک عمل کی جزا ہے اور اُس کے برے عمل کی سزا ہے، (یہ دعا مانگو) اے ہمارے پروردگار! ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہوجائے تو ہماری گرفت نہ فرمانا، اے ہمارے پروردگار! ہم پر (احکام کا) ایسا بوجھ نہ ڈال، جیسا تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا، اے ہمارے پروردگار! ہم پر (آزمائشوں کا) ایسا بوجھ نہ ڈال جس سے عہدہ برآ ہونے کی ہم میں طاقت نہیں، ہمیں معاف فرما، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، (البقرہ: 286)‘‘۔ ایک بار آپ ؐ نے دورانِ جنگ یہ خطبہ ارشاد فرمایا: اے لوگو! دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت کا سوال کرو، پس جب تمہارا دشمن سے ٹکراؤ ہوجائے تو صبر کرو، (بخاری)‘‘۔ ان تعلیمات کا تقاضا ہے کہ بندہ عَجز وانکسار کا پیکربن کر رہے، اللہ تعالیٰ سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگے، ابتلا وآزمائش کو از خود دعوت نہ دے، ورنہ اللہ تعالیٰ اُسے اُس کے نفس کے سپرد فرمادیتا ہے، آپؐ بکثرت یہ دعا کیا کرتے تھے: ’’اے اللہ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں، مجھے پلک جھپکنے کی مقدار بھی میرے نفس کے سپرد نہ فرما اور میرے تمام احوال کی اصلاح فرما، (ابوداؤد)‘‘۔
اس لیے آج جو سیاسی رہنما بلندیوں کی جانب محوِ پرواز ہیں، اقتدار کی منزل انہیں قریب نظر آرہی ہے، ایک ایک پل بے قراری میں گزر رہا ہے، انہیں ہمارا مشورہ ہے کہ تکبر سے اجتناب کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کے لیے بھی تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرائے اور وہ بھی اپنے معتوبین کی طرح نشانِ عبرت بنیں۔ کاش کہ ہم عبرت حاصل کریں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور آسمانوں اور زمینوں میں کتنی ہی ایسی نشانیاں ہیں، جن پریہ لوگ توجہ دیے بغیر گزر جاتے ہیں، (یوسف: 105)‘‘۔ عارف محمد بخش نے کہا ہے: ’’دشمن مَرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مرجاناں‘‘، لیکن ہم چھوٹے ظرف کے لوگ ہیں، ذرا سی کامیابی ملے تو ظرف چھلک جاتا ہے اور پھر بندہ تہی دامن ہوجاتا ہے۔ اقتدار، دولت، جمال اور علم ایسی نعمتیں ہیں جو انعام بھی بن سکتی ہیں اور امتحان بھی، پس اگر ان میں سے کوئی نعمت نصیب ہو جائے تو دعا کرتے رہیں کہ اے اللہ! اس نعمت کو آزمائش نہ بنا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی آزمائشوں سے سرخرو ہونا انبیائے کرام علیہم السلام اور اولوالعزم بندوں کی شان ہے، ہم عاجز اُن کی گَردِ راہ کو بھی نہیں پاسکتے۔