مجرم کو مظلوم بنانے کا عمل

442

ایک جانب سوگ کے ماحول میں قوم انتخابات کی تیاری کررہی ہے اور ساتھ ہی نواز شریف خاندان مجرم سے مظلوم بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ میڈیا میں موجود نواز شریف کے ہنمواؤں نے ایسی فضا بنادی ہے کہ 1993 کا دوریاد دلادیا جب عثمان فاروقی، ان کی اہلیہ اور بیٹی قید میں تھے تھانے تک کسی اخبار نویس یا رشتے دار کی رسائی ہوئی، موبائل فون کیمرے تو تھے نہیں باقاعدہ تصویر بنی سنگل شاٹ میں ماں مصلے پر، بیٹی کرسی پر سر جھکائے بیٹھی تھیں ان پر بھی کرپشن کے الزامات تھے۔ اخبار میں تصویر شایع ہوتے ہی ہمدردی کی لہر اٹھی۔ چودھری شجاعت وزیر داخلہ تھے پریشان ہوکر کراچی دوڑے آئے لیکن اس وقت کے سرل المیڈا کو تلاش نہیں کرسکے۔ پر اسرار نادیدہ قوتیں اس وقت بھی ایسے ہی کام کرتی تھیں جیسے آج کل کررہی ہیں۔اب ایک خبر اس انداز میں شایع ہوئی ہے کہ شریف خاندان سے خوامخوا ہمدردی پیدا ہوجائے۔ نیب کے فیصلے میں کتنی صداقت ہے، کتنا جھول ہے اس پر اپیل قبول ہوتی ہے یا نہیں، نواز اور مریم کی ضمانت ہوتی ہے یا نہیں یہ سارے فیصلے عدالتیں کریں گی لیکن فی الحال تو یہ مجرم کی حیثیت میں جیل گئے ہیں خبر کے مطابق ایک قیدی مریم نواز نے سہولتوں کی پیشکش مسترد کردی۔ میں قیدی کی طرح زندگی گزاروں گی، والا ڈائیلاگ سامنے لایاگیا ہے۔ گھر سے کھانا بھی نہیں منگوایا جائے گا۔ گویا عام قیدیوں سے یکجہتی کا اظہار کیا جارہاہے۔ (حالانکہ بعد میں پالک گوشت پہنچا۔) ایسی خبروں کے نتیجے میں ہمدردی کے جذبات ابھریں گے اور جو الزام لگایا جارہاہے اس میں حقیقت محسوس ہورہی ہے کہ پاناما سے اقامہ اور اب ریفرنس کا سارا سفر نواز شریف کی مقبولیت میں اضافے اور ان کی غلطیوں اور ان کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے تھا۔ ہر فیصلہ نواز شریف اور ان کے خاندان کی ہمدردی میں اضافہ کررہاہے۔ نواز شریف کو مشقت سے استثنا دے کر دو مشقتی دے دیے گئے۔ مریم نواز کے بارے میں خبر آگئی کہ وہ بچوں کو جیل میں پڑھائیں گی۔ دیکھیں کتنے اچھے لوگ ہیں جیل کا کھانا کھائیں گی، بچوں کو پڑھائیں گی۔ کیا پاکستانی قوم کو معلوم تھا کہ جیل کے ناشتے میں صرف چائے ملتی ہے لیکن اب نواز اور مریم کو جیل ہوئی تو قوم کو پتا چلاکہ ناشتے میں صرف چائے ملی۔ پیشکش تو انڈا پراٹھا اور چائے کی تھی لیکن پائے کھانے والے بھلا تیسرے درجے کے پراٹھے کھائیں گے؟ چلیں اس طرح پاکستان کے تین مرتبہ حکمران بننے والے شخص کو یہ تو پتا چلا کہ جیل کا بیت الخلا گندہ ہوتا ہے۔ کمروں میں سہولتیں نہیں ہوتیں۔ عجیب بات ہے اے سی بھی نہیں جیلوں میں۔ عام قیدیوں کو کیا ملتا ہے اور کیا سلوک ہوتا ہے یہ کسی کو نہیں پتا اور نواز شریف اور دیگر سیاسی مجرموں کو کیا سہولتیں ملتی ہیں دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ابھی تو دو دن ہوئے ہیں آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ احتجاج، رہائی کے مطالبے، والدہ کی بیماری یا کلثوم نواز کی طبیعت بگڑنا، ہر قدم پر مجرم مظلوم بنے گا۔جو کام عوام کو کرنے تھے وہ مقتدر قوتوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیے ایسے کاموں کو اس طرح انجام دینے کا انجام یہی ہوتا ہے۔