شعبہ صحت میں کوئی ایسا اسپتال نہیں کہ جہاں حکمران اپنا علاج کرواسکیں، پی ایم اے

262
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد پی ایم اے ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں جب کہ ان کے ساتھ پی ایم اے کے مرکزی خازن ڈاکٹر قاضی محمد واثق، پی ایم اے کراچی کے صدر ڈاکٹر خلیل مقدم اور پی ایم اے کراچی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالغفور شورو بھی موجود ہیں۔

کراچی (اسٹاف رپورٹر) شعبہ صحت میں کوئی ایسا اسپتال نہیں ہے کہ جس میں ہمارے حکمران اپنا علاج کرواسکیں نہ ہی کوئی ایک بھی یونیورسٹی ایسی نہیں جو عالمی درجہ بندی میں پہلی 500 یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہو، تمام سیاسی جماعتیں اور الیکشن میں حصہ لینے والے تمام امیدوار صحت سے متعلق مسائل کو اپنے منشور میں شامل کریں، بیماریوں کے علاج کے بجائے ان کی روک تھام اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر توجہ دی جائے، چھالیہ، گٹکا، شیشے کے استعمال، فروخت اور تشہیر پر مکمل پابندی لگائی جائے، تمام اعلیٰ سرکاری عہدے داروں، وزیروں اور ممبران پارلیمینٹ کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنا علاج ملک میں ہی کرائیں بلکہ سرکاری اسپتالوں سے کرائیں، ریلیوں، جلوسوں، دھرنوں اور دیگر مقاصد کے لیے سڑکوں کے استعمال پر مستقل طور پر پابندی لگا دی جائے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد، مرکزی خازن ڈاکٹر قاضی محمد واثق، صدر پی ایم اے کراچی ڈاکٹر خلیل مقدم اور جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے پی ایم اے ہاؤس کراچی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔ پی ایم اے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ملک میں صحت و تعلیم کے شعبوں میں ہونے والی تنزلی پر تشویش کا اظہار کرتی ہے، بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایک بھی یونیورسٹی ایسی نہیں جو عالمی درجہ بندی میں پہلی 500 یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہو، اسی طرح شعبہ صحت میں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں ہے کہ جس میں ہمارے حکمران اپنا علاج کروا سکیں، اسی لیے وہ اپنے علاج کے لیے بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ ان رہنماؤں کا مزید کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ صحت و تعلیم کو کبھی بھی ہمارے حکمرانوں نے اہمیت نہیں دی، حکمرانوں کے اسی رویے کی بدولت جا بجا پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور اسپتال کھل رہے ہیں اور پھر لوگ مجبوراً ان اداروں سے رجوع کرتے ہیں۔ ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پی ایم اے تمام سیاسی جماعتوں اور الیکشن میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ صحت سے متعلق مسائل کو اپنے منشور میں شامل کریں اور ان پر عمل درآمد بھی کریں، بیماریوں کے علاج کے بجائے ان کی روک تھام اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر توجہ دی جائے اور بجٹ میں بیماریوں کی روک تھام کے لیے زیادہ رقم مختض کی جائے، پاکستان کے ہر شہری کو پینے کا صاف پانی میسر ہونا چاہیے تاکہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی روک تھام کی جائے۔ پی ایم اے کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ چھالیہ، گٹکا، شیشے کے استعمال، فروخت اور تشہیر پر مکمل پابندی لگائی جائے تاکہ پاکستان میں منہ کے سرطان اور منہ کے نہ کھلنے جیسی بیماریوں کی روک تھام کی جاسکے، ملک سے مچھروں کے خاتمے کے لیے بھرپور کوشش کی جائے تاکہ عوام ڈینگی، ملیریا، چکن گنیا اور زیکا وائرس جیسی بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں، اتائیت کے خلاف بھرپور اقدامات اٹھاتے ہوئے اس کا مکمل خاتمہ کیا جانا چاہیے، سالانہ بجٹ میں صحت کے نظام کے لیے جی ڈی پی کا 6 فی صد مختص کیا جائے اور ہنگامی بنیادوں پر بنیادی صحت کے مراکز، دیہی صحت کے مراکز سمیت تعلقہ اسپتالوں کو مکمل فعال بنایا جائے۔ ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری اسپتالوں میں صاف ستھرا اور صحت مند ماحول پید اکرے نیز اسپتالوں میں آنے والے تمام مریضوں کو صحت کی تمام بنیادی سہولتیں مفت فراہم کرے، کم از کم آغاز کے طور پر تمام سرکاری اسپتالوں میں ہنگامی علاج بشمول سرجری کی سہولتیں مفت فراہم کی جائیں، حفاظتی ٹیکوں کے نظام کو مضبوط بنایا جائے اور خاص طور پر ملک سے پولیو کے خاتمے کے لیے اس پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔ پی ایم اے رہنماؤں کا مزید کہنا تھا کہ ملازمین کی بھرتیوں سے لے کر ادویات کی خریداری تک صحت کے تمام معاملات شفاف ہونے چاہئیں۔ پی ایم اے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ تمام اعلیٰ سرکاری عہدیداروں، وزیروں اور ممبران پارلیمینٹ کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنا علاج ملک میں ہی کرائیں بلکہ سرکاری اسپتالوں سے کرائیں، ماحولیاتی اور صوتی آلودگی پر قابو پایا جائے، موسمی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ جیسے معاملات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور صحت مند ماحول کی تشکیل کے لیے بھرپور کوششیں کی جائیں، ڈاکٹروں کی ہجرت روکنے کے لیے سرکاری اور نجی اداروں میں ٹیچنگ اور جنرل کیڈر کے ڈاکٹروں کا کیریئر اسٹرکچر تشکیل دیا جائے، تمام صوبائی دارالحکومتوں میں جدید وائرولوجی لیب بنائی جائیں، میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ کی ترویج کے لیے پی ایم ڈی سی کو مضبوط، مستحکم اور ذمے دار بنایا جائے، نئے میڈیکل کالج اور اسپتال بنانے کے بجائے موجودہ میڈیکل کالجوں اور اسپتالوں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جائے، ملک میں اعلیٰ طبی تعلیم کے فروغ کے لیے تمام تعیناتیاں اور ترقیاں میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں، مستند نرسوں، مڈوائفوں اور پیرامیڈیکس کی پیداوار کے لیے سرمایہ کاری کی جائے اور ان کے کیریئر اسٹرکچر کی ترقی کے لیے کام کیا جائے، ڈاکٹروں کے لیے ریگولر سروس اسٹرکچر اور ٹائم اسکیل پروموشن کے معاملات حل کیے جائیں۔ پی ایم رہنماؤں نے مزید مطالبہ کیا کہ ادویات کی قیمتیں غریب مریضوں کی پہنچ سے دور نہ ہوں، غیر معیاری ادویات کی فروخت پر قابو پایا جائے، غیر معیاری غذائی اشیاءکی فروخت پر قابو پایا جائے، ٹریفک حادثات کی روک تھام کی جائے تاکہ لوگوں کی زندگیاں اور صحت بچائی جا سکے، ریلیوں، جلوسوں، دھرنوں اور دیگر مقاصد کے لیے سڑکوں کے استعمال پر مستقل طور پر پابندی لگا دی جائے تاکہ عوام کو مشکلات سے بچایا جا سکے، پاکستان میں اینٹی بائیوٹک کی مزاحمت کے مسئلے پر قابو پایا جائے، خاص طور پر امریکا کے متعدی بیماریوں کے کنٹرول سینٹر سے جاری ہونے والی وارننگ کے بعد ایکس ڈی آر ٹائیفائڈ بخار سے متعلق ادویات کی مزاحمت پر توجہ دی جائے۔