بوکھلاہٹیں

345

میں نے پہلے بھی ایک بار لکھا تھا اور آج پھر سابق وزیرِ اعظم جناب محمد خان جونیجو مرحوم یاد آرہے ہیں۔ 1973ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا متفقہ آئین منظور ہونے کے بعد جس وزیرِ اعظم نے پرسکون اور ہر قسم کے ذہنی تناؤ سے آزاد ہوکر (آرام دہ اور ٹینشن فری) حکومت کی، وہ جنابِ جونیجو ہی تھے۔ اُن سے پہلے جناب ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں اگر کوئی رکن اسمبلی تحریکِ التوا، پوائنٹ آف آرڈر یا توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتا، تو اسے اسمبلی سے باہر کردیا جاتا۔ مگر جونیجو مرحوم کے دور میں ارکانِ اسمبلی کے لیے ہر شوق پورا کرنے کی آزادی تھی اور ان چیزوں سے نظام متزلزل نہیں ہوتا تھا۔ جونیجو دور میں اپریل 1986 میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو خود ساختہ جلا وطنی کے بعد لاہور واپس آئیں تو اُن کا بہت بڑا استقبال کیا گیا، یہاں تک کہ گورنر ہاؤس کے سامنے سے گزرتے ہوئے محترمہ نے کہا: ’’اگر ہم چاہیں تو ابھی گورنر ہاؤس پر قبضہ کرسکتے ہیں‘‘، لیکن اس سے کوئی زلزلہ نہیں آیا، نظامِ حکومت چلتا رہا، حالاں کہ اس وقت چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق مرحوم بدستور صدر تھے۔ جونیجو مرحوم نہ تو پرکشش شخصیت کے مالک تھے، نہ ہی مقبول عوامی مقرر تھے، ان کی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ بھی ق لیگ کی طرح سرکار کی سرپرستی میں تشکیل پائی تھی، لیکن وہ ٹھنڈے اور منکسر المزاج حوصلہ مند شخص تھے۔
پس معلوم ہوا کہ حاکمِ وقت کو حوصلہ مند، متحمل اور ٹھنڈے مزاج کا ہونا چاہیے۔ لیکن جب کم حوصلہ، تھُڑدلے اور بے صبرے لوگ کرسیِ اقتدار پر بیٹھ جائیں، تو ایسی ہی بوکھلاہٹ نظر آتی ہے جیسے گزشتہ چند دنوں میں نظر آئی۔ ٹیلی ویژن چینل پر بیٹھ کر اپنے تجزیوں اور افلاطونی تبصروں سے آسمان کی بلندیوں کو سر کرنے والے بہت چھوٹے نظر آئے۔ اگر معزول وزیر اعظم نواز شریف ائر پورٹ آنے والے لوگوں سے خطاب کرلیتے، پھر رائے ونڈ میں جاتی اُمرا میں جاکر اپنی بوڑھی ماں سے مل لیتے اور وہیں سے انہیں گرفتار کرلیا جاتا، تو وہ شور نہ مچتا جو استقبال کو روکنے کے سبب مچا اور لگا کہ حکومت حواس باختہ ہے۔ اُس کے بعد زیادہ سے زیادہ ٹیلی ویژن چینلز پر یہ بحث چھڑ جاتی کہ استقبال کامیاب تھا یا ناکام، عوام کی تعداد دس ہزار تھی یا لاکھوں میں اور پھر قصہ تمام ہوجاتا۔ لیکن حکومت کی بوکھلاہٹ نے نواز شریف کے مقصد کو پورا کردیا اور اُن کے آنے پر ہلچل مچ گئی۔ یہ سن کر ہنسی آئی کہ مسلم لیگ ن نے ریلی کی اجازت نہیں لی،کیا 2011 سے 2018 تک جو دھرنے ہوئے، ان سب کے پاس حکومت کے اجازت نامے تھے، آئے دن احتجاجی ریلیاں نکلتی ہیں، کیا وہ اجازت نامہ لے کر نکلتی ہیں۔ جب سارا نظام ایک شخص کو گرفتار کرنے کی طرف متوجہ ہوجائے گا تو دہشت گردوں کو ضرور موقع ملے گا، جس کے مظاہر ہمیں گزشتہ ہفتے نظر آئے، ہماری ترجیحات اور قبلۂ توجہات بدل سکتا ہے، لیکن دہشت گرد اپنے مشن میں یکسو رہتے ہیں اور موقع پاتے ہی حملہ کرتے ہیں۔ ہم فرض کرلیتے ہیں کہ وہ کچل دیے گئے ہیں، لیکن اچانک وہ سر اٹھاکر اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں، ہمیں بلند بانگ دعوے نہیں کرنے چاہییں، ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔
ہمارے میڈیا کی اخلاقیات اور علمی معیار کا جواب نہیں ہے، ٹکر چل رہے ہوتے ہیں: نااہل وزیر اعظم لاہور سے اسلام آباد یا اسلام آباد سے لاہور روانہ ہوگئے، گویا ملک میں وزیر اعظم دو ہوتے ہیں: ایک ’’اہل وزیر اعظم‘‘ اور ایک ’’نااہل وزیر اعظم‘‘، جب کوئی شخص وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے نا اہل ہوگیا تو اب وہ وزیرِ اعظم نہیں رہا۔ البتہ معزول وزیرِ اعظم یا سابق وزیرِ اعظم لکھا جاسکتا ہے، جیسے انگریزی میں متوقع وزیر اعظم لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح مجرم کا سابقہ لگانے کی مستقل ضرورت کوئی نہیں ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا مقدمہ چل رہا تھا تو ہائی کورٹ کی کارروائی کی رپورٹنگ کرتے ہوئے پی ٹی وی روزانہ ان کا نام بڑے ملزم کے سابقے کے ساتھ لیتا تھا، پھر وہ مجرم قرار پائے، لیکن آج عام لوگوں کو اُن عالی مرتبت منصفین کے نام تک یاد نہیں ہیں، مگر بھٹو کا نام سب کو یاد ہے۔
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ کسی کو ابتلا میں دیکھیں تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگیں۔ ابتلا وآزمائش کے اسباب زمینی بھی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کے فیصلے بھی ہوتے ہیں، رسول اللہ ؐ اپنی بلندیِ درجات اور تعلیمِ امت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرتے تھے: ’’اے اللہ! میں تیری ناراضی سے بچ کر تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری سزا سے بچ کر تیری عافیت کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری گرفت سے بچ کر تیری رحمت کی پناہ میں آتا ہوں، (مسلم)‘‘۔ (۲) ’’اے اللہ! میں تیری نعمت کے زائل ہونے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور تیری عافیت سے محروم ہوجانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اس سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ اچانک تیری سزا کا نشانہ بنوں، (مسلم)‘‘۔ آدم علیہ السلام کی سنت یہ ہے کہ جس نے کوئی غلطی کی ہے، وہ اس کا اعتراف کرے، اس پر نادم ہو اور اللہ سے غیر مشروط معافی مانگے اور اس کی تلافی کرے، یہی تَوْبَۃُ النَّصُوْح ہے۔
جنابِ عمران خان کا اضطراب اور بے قراری دیدنی ہے، روزانہ کئی ٹی وی چینل، کالم نگار اور تجزیہ کار انہیں وزارتِ عظمیٰ کی بشارت سناتے ہیں، لیکن اُن کا ظرف چھلک رہا ہے۔ ایک مُدبّر رہنما میں جو متانت اور وقار ہونا چاہیے، وہ انہیں چھوکر بھی نہیں گزرا۔ ایک ذمے دار قومی رہنما کو یہ لب ولہجہ زیب نہیں دیتا کہ نواز شریف کے استقبال کے لیے ائر پورٹ جانے والوں اور گدھوں میں کوئی فرق نہیں، جو اُن کو لینے جائیں گے، وہ انسان کہلانے کے قابل نہیں ہیں۔ آپ کو صرف اپنی پارٹی کا نہیں، پوری قوم کا وزیرِ اعظم بننا ہے، منتخب ہونے کی صورت میں آپ کوسب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اُدھر رانا ثناء اللہ کی ہَفَوات بھی ختم ہونے کو نہیں آرہیں، سیاسی وابستگیوں کو دینی مقدّسات سے تشبیہ دینا یا اُن سے برتر قرار دینا انتہائی درجے کی بدنصیبی اور محرومی ہے۔ خان صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ ان کی جماعت میں صاحبزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری انتہائی متین، باوقار، ذی علم، متقی اور متحمل مزاج شخص ہیں، وہ باعمل پیر بھی ہیں، فرصت ملے تو اُن کی مجلس اختیار کیا کریں، اچھے لوگوں کی صحبت بابرکت ہوتی ہے، اس سے انسان کی اصلاح ہوتی ہے، حدیث قدسی ہے: ’’ایسے لوگوں کا ہم نشین بدنصیب نہیں رہتا، (بخاری)‘‘۔
ڈمپ ٹرمپ: امریکی صدر ٹرمپ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ ’’پہلے تولو، پھر بولو‘‘ کے قائل نہیں ہیں، بلکہ پہلے بولتے ہیں، پھر تولتے ہیں، نتیجتاً ان کے حصے میں شرمندگی آتی ہے، اگرچہ وہ بے شرم ہیں۔ وہ برطانیہ کے دورے پر ہیں، اسے میڈیا نے سرکاری دورہ قرار نہیں دیا، بلکہ ورکنگ وزٹ قرار دیا ہے، ٹرمپ نے ’’دی سن‘‘ اخبار کے رُوپَرٹ مَرداک کو انٹرویو دیتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم ٹرسامے کے بارے میں توہین آمیز انداز میں کہا: ’’مے نے بریگزٹ پر میرے مشورے کو نہیں مانا۔ انہوں نے ٹرسامے کی کابینہ سے اُن کی بریگزٹ ڈیل پر بطورِ احتجاج مستعفی ہونے والے سابق وزیرِ خارجہ بورس جانسن کے بارے میں کہا: ’’وہ عظیم وزیر اعظم ثابت ہوں گے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ’’یہ ڈیل وہ نہیں ہے جس کے لیے برطانیہ کے عوام نے ووٹ دیا تھا‘‘۔ اس پر امریکی ٹی وی چینل سی این این نے خوب تماشا لگایا اور لوگوں نے جی بھر کر ٹرمپ کو کوسا۔ بعد میں ٹرمپ کو احساس ہوا اور مے کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے معذرت کی، رُوپَرٹ مَرداک کی رپورٹ کو جعلی قرار دیا اور مے کے بارے میں چند تعریفی کلمات کہے کہ وہ زبردست مذاکرات کار ہیں، مگر مے کو جو نقصان پہنچنا تھا، وہ پہنچ چکا تھا اور اب ٹرمپ کی طرف سے اس کی تلافی محض اشک شوئی کے مترادف تھی۔ وزیر اعظم ٹرسا مے مشکل میں ہیں، کیوں کہ ان کی ’’بریگزٹ ڈیل‘‘ کا جو خاکہ سامنے آیا ہے، اُس پر احتجاج کرتے ہوئے اُن کی کابینہ کے تین وزرا مستعفی ہوچکے ہیں۔
ٹرمپ کے دورے کے دوران جمعے کے دن سینٹرل لندن میں ان کے خلاف ایک بڑی ریلی نکالی گئی، جسے مغربی میڈیا نے ایک لاکھ افراد کا اجتماع بتایا اور بی بی سی نے رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ ٹریفلگا اسکوئر اور اس کی اطراف کی سڑکوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ مظاہرین نے جو پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، ان پر لکھا تھا: ’’ٹرمپ نہیں چاہیے‘‘، ’’ہم ٹرمپ کو خوش آمدید نہیں کہتے‘‘، ’’ٹرمپ جھوٹا بدمعاش اور فاشسٹ‘‘ اور ’’ڈمپ ٹرمپ‘‘ وغیرہ۔ Dump کے مِن جُملہ معانی میں سے ایک ہے: ’’کچرے کو ٹھکانے لگانا‘‘۔ یہ مظاہرین سفید فام لوگ تھے، یہ مسلمانوں یا دیگر تارکین وطن کا احتجاج نہیں تھا، بلکہ اصل برطانوی باشندوں کا تھا اور برطانوی وزیر اعظم مے کے بارے میں ٹرمپ کے توہین آمیزکلمات نے اس احتجاجی ریلی کو مزید تقویت بخشی۔ لندن آنے سے پہلے ٹرمپ نے ناٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی، یہ اجلاس بھی کوئی زیادہ خوشگوار ماحول میں نہیں ہوا، جرمن چانسلر انجیلا مرکل اُن کے لیے آئرن لیڈی ثابت ہوئیں۔ ٹرمپ نے کہا: ناٹو اتحادیوں نے دفاع میں اپنا حصہ جی ڈی پی کے چار فی صد تک کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن ناٹو کے سیکرٹری جنرل جین اسٹوٹل برگ نے اس کی توثیق نہیں کی اور فرانسیسی صدر ایمونول مکغاں نے کہا: ’’ہم نے صرف دو فی صد کے سابق وعدے کو پورا کرنے کا عہد کیا ہے‘‘۔ الغرض اگرچہ ناٹو امریکا کے تابع ہے، لیکن جب سے ٹرمپ نے بین الاقوامی معاہدات سے یک طرفہ انحراف شروع کیا ہے، ناٹو اتحادی پہلے کی طرح تابع مُہمَل نہیں رہے، بلکہ کسی حد تک اس پر احتجاج کرتے ہیں۔ پس اختلافی امور میں ایران کا جوہری معاہدہ، عالمی تجارتی معاہدہ اور ماحولیات سے متعلق عالمی معاہدے شامل ہیں۔ اس میںیہ پیغام مستور ہے کہ امریکا اپنے اتحادیوں کا اعتماد کھورہا ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے روس کے ساتھ آٹھ سو میل طویل گیس پائپ لائن بچھانے کا جو معاہدہ کر رکھا ہے، اس پر ٹرمپ سخت ناراض ہیں، کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ اس کے نتیجے میں جرمنی کا انحصار روس پر بڑھ جائے گا اور روس بتدریج یورپین یونین کے معاملات پر اثر انداز ہوگا، لیکن ظاہر ہے کہ ہر ملک کے لیے اس کا اپنا قومی مفاد مقدم ہوتا ہے۔ (نوٹ: یہ کالم ہفتہ 14جولائی کو لکھا گیا)۔