عسکری پارک میں جھولا گرنے کا حادثہ

346

کراچی کے عسکری پارک میں ایک جھولا گر گیا۔ اس حادثے میں ایک لڑکی جاں بحق اور دیگر 18 افراد زخمی ہوگئے۔ اس واقعے پر وزیراعلیٰ نے رپورٹ طلب کرلی اور چیف سیکرٹری نے کمال کردیا۔ پورے صوبے میں تین روز کے لیے تمام جھولے بند کردیے۔ اس کے بعد روایتی بیانات اور اقدامات۔ یہ معمول کا واقعہ تھا ایسا حادثہ کہیں بھی ہوسکتا ہے لیکن اس میں کچھ سوالات ایسے ہیں جن کا جواب عوام تک پہنچنا چاہیے۔ بتایا گیا ہے بلکہ یہ سب نے دیکھا ہے کہ اس سال عیدالفطر پر تمام تر تزئین اور آرائش نو کے بعد اس پارک کا افتتاح ہوا تھا۔ جھولے اور دوسری تنصیبات بھی نئی تھیں تو پھر نیا جھولا کیسے ٹوٹ گیا۔ ابتدائی تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ جھولے کی گراری سلپ ہونے اور نٹ بولٹ ڈھیلے ہونے کے سبب حادثہ پیش آیا۔ اگر یہی حادثہ کسی اور جگہ پیش آتا تو جھولا نصب کرنے والا ٹھیکیدار ٹھیکا منظور کرنے والا افسر اور آٹھ دس دیگر اہلکار اندر ہوتے۔ پارک کی انتظامیہ کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ ہنگای صورتحال سے نمٹنے کا کوئی انتظام کیوں نہیں تھا۔ اگر حادثے پر لوگ احتجاج کررہے تھے تو انہیں تشدد کرکے باہر نکالنے کا کیا جواز تھا۔ چیف سیکرٹری سندھ نے کس کے حکم پر صوبے بھر کے جھولے بند کردیے؟ یہ جھولے اب مخدوش ہوگئے ہیں یا پہلے سے تھے اور کیا سندھ کی انتظامیہ اتنی چابکدست ہے کہ تین روز میں صوبے کے ہزاروں جھولوں کا معائنہ کرکے ان کی صحت کے بارے میں کوئی رپورٹ دے سکے گی؟ ظاہری بات ہے یہ ایسا نہیں کرسکتے بلکہ اب حکومتی اہلکار پارکوں میں جاکر جھولے چیک کرنے کے بہانے مال بٹوریں گے۔ یہ کوئی فیصلہ ہوا کہ ایک پارک میں جھولا گرگیا تو سارے صوبے کے جھولے بند کردیے گئے۔ کیا سارے جھولے ایک ہی ٹھیکیدار نے نصب کیے تھے۔ میڈیا کا یہ حال ہے کہ آدھے گھنٹے تک عسکری پارک کا نام نہیں لیا جارہاتھا۔ سبزی منڈی کے قریب ایک پارک کہا جارہاتھا۔ اس قسم کے رویے سے تو دوسرے سوالات جنم لیں گے۔ ڈر یہ ہے کہ کہیں اس کی وضاحت کے لیے بھی کوئی پریس کانفرنس نہ کر بیٹھے۔