یکساں مواقع سب کا حق ہیں

123

پاکستان پیپلزپارٹی کے صدر نشین بلاول زرداری نے شکوہ کیا ہے کہ انتخابی مہم میں یکساں مواقع نہیں دیے جارہے۔ مجھے سیکورٹی کے نام پر محدود رکھا جارہاہے۔ ہمارے کارکنوں پر وفاداری تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہاہے۔ ان کے والد پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری نے بھی اعتراض کیا ہے کہ بلاول کا راستہ روکا جارہاہے۔ باپ بیٹے کو صرف اپنے حوالے سے شکایت ہے لیکن مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف بھی یہی کہتے پائے گئے کہ صرف ایک شخص کو انتخابی مہم کی اجازت ہے باقی سب مشکلات کا شکار ہیں۔ دونوں کی بات درست ہے لیکن ان دونوں ہی سے یہ سوال ہے کہ کیا آپ لوگ اپنے اپنے اقتدار کے دوران دوسروں کو اسی طرح کے یکساں مواقع دیتے ہیں جیسے یکساں مواقع اپنے لیے آج مانگ رہے ہیں۔ در اصل ان کی عادت ہوگئی ہے کہ دوسروں کو باندھ کر اپنے لیے کھلے مواقع حاصل کیے جائیں۔ پیپلزپارٹی بھی اسی طرح کے مواقع حاصل کرکے اقتدار تک پہنچی ہے اور مسلم لیگ ن بھی کئی مرتبہ ایسے مواقع حاصل کرچکی ہے۔ اب مقتدر قوتیں کسی اور کو یہ مواقع دے رہی ہیں جو اگرچہ غلط ہے لیکن وہ لوگ تو اس کا شکوہ نہیں کریں جو اس طرح بلکہ اس سے زیادہ مواقع کے مزے لوٹ چکے ہیں۔ یکساں مواقع کا شکوہ تو ان پارٹیوں کو کرنا چاہیے جو اس ملک میں حقیقی تبدیلی لاسکتی ہیں۔ لیکن نہ صرف انہیں مواقع سے محروم کیا جارہاہے بلکہ ان کا میڈیا بلیک آؤٹ کیا جارہاہے۔ خصوصاً متحدہ مجلس عمل کے ساتھ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا رویہ نہایت معاندانہ ہے۔ بڑی مشکلوں سے جلسے دکھائے جاتے ہیں۔ جلسوں کا جو شاٹ دکھایا جاتا ہے وہ یا تو چھوٹا ہوتا ہے یا قریب سے چند لوگ دکھادیے جاتے ہیں۔ جب کہ جس کو مواقع دیے جارہے ہیں اس کے جلسوں کو بڑا اور دیر تک دکھایا جارہاہے۔ لیکن مجلس عمل نے اس کمزوری کو بھی اپنی طاقت میں بدل دیا ہے۔ سماجی میڈیا اور انفرادی رابطوں کے ذریعے گلی گلی گھر گھر کتاب کا پیغام پہنچایا جارہاہے اور اس مقولے کو درست ثابت کردیا ہے کہ میڈیا ساتھ نہ دے تو اپنا میڈیا قائم کرلیں اور ان کا میڈیا براہ راست عوامی رابطہ ہے اس میں وہ کامیاب ہیں۔