یکساں مواقع اور عسکری جھولا

320

پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں نے شکوہ کیا ہے کہ ملک میں انتخابی مہم میں انہیں یکساں مواقع نہیں دیے جارہے۔ بلاول زرداری، میاں شہباز شریف اور آصف زرداری یہ کہہ چکے۔ متحدہ قومی موومنٹ تو حکومت میں ہو یا باہر اس کا کام یہی ہوتا ہے کہ ہمیں موقع نہیں دیا جارہا، اختیارات نہیں دیے جارہے، وہ بھی یہی شکوہ کررہے ہیں۔ شہباز شریف نے تو یہی کہا کہ سب مشکل میں ہیں ایک شخص کو انتخابی مہم کی اجازت ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے یہی کہا ہے کہ سب کو انتخابی مہم چلانے کا یکساں حق حاصل ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ ایک جماعت آج کل عسکری جھولے میں جھول رہی ہے۔ اس پر یاد آیا کہ کراچی کے ایک پارک میں جھولا گر گیا جس سے ایک لڑکی جاں بحق ہوگئی اور درجن بھر لوگ زخمی ہوگئے۔ یہ جھولا بھی نیا نیا لگایا گیا تھا۔ عجیب اتفاق ہے اس خبر کا الیکشن اور سیاسی رہنماؤں کے بیان سے کوئی تعلق نہیں لیکن بعض خبریں دوسری خبروں سے ملا کر پڑھی جائیں تو حیرت انگیز باتیں سامنے آتی ہیں۔ ابھی دس بارہ روز قبل ہی یہ افواہ اڑی کہ کراچی کے عسکری پارک میں جھولا گر گیا اس کے فوراً بعد تردید آئی کہ یہ خبر بالکل غلط ہے عسکری پارک میں جھولے سالم ہیں اور لوگ اس پارک میں تفریح کررہے ہیں۔ جلنے والوں نے جملہ آگے بڑھادیا کہ پی ٹی آئی عسکری جھولے میں جھول رہی ہے۔ لیکن اب اچانک اسی پارک میں جھولا گر گیا اور ٹی وی چینلوں نے خبر دی کہ پرانی سبزی منڈی کے قریب ایک پارک میں جھولا گر گیا۔ انہوں نے نام نہیں لیا۔ بعض چیزیں خوامخواہ میں بدنامی بن جاتی ہیں۔ ٹی وی چینلز اس وقت کیا کریں گے جب کسی جگہ عسکری بینک میں ڈاکا پڑ جائے۔ خیر یہ تو ٹی وی چینلوں کا مخمصہ ہے۔ ہم تو اس مخمصے میں ہیں کہ عسکری جھولے میں جھولنے والوں کا کیا بنے گا۔ پارک میں حادثہ ہوا، افسوسناک ہے ایسے حادثات کو حادثہ ہی سمجھنا اور کہنا چاہیے لیکن ظالم لوگ کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ اب کہنے لگے ہیں کہ جب جھولا نہیں سنبھلتا تو نئی حکومت کیوں بنانے چلے ہو۔ ایک نے یہ جملہ بھیج مارا کہ پھر ڈیم بھی ایسا ہی بنے گا۔
بات تو یہ ہے کہ ہم سیاسی جماعتوں کے شکوے کا ذکر کررہے تھے۔ سیاسی جماعتیں بجا کہہ رہی ہیں کہ یکساں مواقع نہیں مل رہے۔ لیکن آصف زرداری، شہباز شریف اور متحدہ والے جانتے ہیں کہ جو لوگ مواقع دیتے ہیں کبھی کبھار تو خوب جھولا دیتے ہیں اور کبھی کسی وجہ سے کڑیاں ٹوٹ جائیں تو جھولا گر جاتا ہے، پھر سارے مزے نکل جاتے ہیں۔ اقتدار کے جھولے سے جیل کے گدے تک پہنچ جاتے ہیں۔ آج کل جو لوگ جھولے میں مزے کر رہے ہیں وہ ابھی اس حقیقت سے آشنا نہیں ہیں، ہاں جو لوگ الیکٹ ایبلز کے نام سے اس جھولے میں آبیٹھے ہیں وہ ضرور جانتے ہیں کہ ایسا انجام ہوسکتا ہے لیکن اب یہ اتنے عادی مجرم ہوچکے ہیں کہ کل پھر کسی اور جھولے میں جا بیٹھیں گے۔ ان کا ہر عمل پر فیصلہ، ہر پلٹا اور قلابازی جمہوریت، عوام اور ملک کے مفاد میں ہوتی ہے۔ ایک اور قلابازی کھالیں گے۔ جناب شہباز شریف کس سے یکساں مواقع مانگ رہے ہیں اور ایک شخص کے لیے شکوہ کیوں کررہے ہیں، ابھی کچھ ہی دن پہلے تو اس ملک کے سارے ادارے ایک ہی شخص کے لیے کام کررہے تھے اسے ہی دکھاتے، اسے ہی سناتے تھے اب بھی ایسا ہی کررہے ہیں لیکن محرم سے مجرم بنا کر۔ آصف زرداری بھی کس سے یہ حق مانگ رہے ہیں۔ جب ان کے لیے سارے راستے صاف کیے گئے تھے جب سب کے راستے بند کرکے انہیں ایوان صدر تک پہنچایا گیا تھا۔ بے نظیر کا جھولا گرادیا گیا تھا، مشرف کے جھولے کی کڑیاں توڑی گئی تھیں، اب کسی اور کی باری ہے۔ اگر یہ سب مل کر کسی طاقتور کے جھولے کی کڑیاں توڑنا چاہتے ہیں ایک حقیقی قیادت لانا چاہتے ہیں سب کے لیے یکساں مواقع چاہتے ہیں تو انہیں یہ حق سب کو دینا ہوگا، صرف اپنے لیے یکساں مواقع اور اپنے لیے جھولے۔۔۔ یہ نہیں ہوگا۔ ایسا ہوا تو نتیجہ بھی ایسا ہی ہوگا، افسوسناک امر تو یہ ہے کہ یہ لوگ سبق نہیں لیتے۔ اپنے اقتدار کے دوران تو کسی کو یہ حق دینے کے روادار نہیں جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو سب کو یکساں مواقع چاہیے ہوتے ہیں۔ بلاول صاحب کی سواری جب سڑک پر آتی ہے تو کیا اس وقت سڑک پر چلنے والوں اور عام گاڑیوں کو یکساں مواقع ملتے ہیں، ابھی اقتدار سے بہت دور ہیں لیکن سڑک پر بھی عام لوگوں کو یکساں مواقع دینے کے لیے تیار نہیں۔ اقتدار میں آگئے تو کیا ہوگا؟۔ شہباز صاحب کو تو سب پتا چل چکا، اگر یہ سب لوگ کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو عہد کریں کہ اپنے اقتدار کے دوران سب کو یکساں مواقع دیں گے پھر یہ مطالبہ کرتے ہوئے اچھے بھی لگیں گے۔