انتخابات سے قبل دہشت گردی کے مقاصد

291

ملک میں انتخابات سے چند دن قبل دہشت گردی کی خون آلود لہر نے پشاور سے آغاز کیا جہاں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی میٹنگ میں خودکش حملہ کیا گیا۔ 20 افراد سے زیادہ جان سے گزر گئے۔ بشیر بلور کے بیٹے ہارون بلور بھی اس حملے کا شکار ہوئے۔ ان کے والد بشیر بلور 2012ء میں دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بنے تھے۔ 11 جولائی کے بعد 13 جولائی بنوں میں جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار اکرم خان درانی کے قافلے پر حملہ ہوا 3 افراد ہلاک اور 39 زخمی ہوئے۔ 14 جولائی مستونگ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سراج رئیسانی کے جلسے پر حملہ کیا گیا اس حملے میں 128 افراد ہلاک ہوئے جب کہ 122 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہاں میڈیا خاص طور سے الیکٹرونک میڈیا کا رویہ انتہائی عجیب اور افسوسناک تھا۔ سارے چینل نواز شریف اور ان کی بیٹی کی لمحہ لمحہ کی خبر کو دسیوں بار دوہراتے رہے۔ انہیں لہو لہو بلوچستان کی خبر نہیں ملی جہاں ہلاک اور زخمی ہونے والے لوگوں کی تعداد سیکڑوں سے تجاوز کرگئی تھی۔
بلوچستان میں ایک دن قبل بھی خضدار میں انتخابی دفتر کے سامنے دھماکا ہوا تھا، ہفتہ کی صبح امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی ریلی پر بھی فائرنگ ہوئی، انتخابات سے قبل یہ حملے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔ سراج رئیسانی کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ پاکستان سے انتہائی محبت رکھنے والے نوجوان سیاستدان تھے۔ جنہوں نے اپنے والد اور بیٹے کو بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے دیکھا تھا۔ سوشل میڈیا پر ان کی پاکستان سے محبت کی انتہائی جذباتی ویڈیوز اس کی تصدیق کررہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بلوچستان میں ان کی یہ حیثیت تھی تو ان کی سیکورٹی کے لیے بھرپور انتظامات کیوں نہیں کیے گئے؟۔ بلوچستان میں تو یوں بھی پاکستان سے محبت رکھنے والے لوگ دہشت گردوں کا خاص نشانہ ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی حیران کن ہے کہ اس سلسلے میں ’را‘ کے کردار کے بارے میں کسی بھی سطح پر آواز نہیں اٹھائی گئی۔ حالاں کہ بلوچستان میں ’را‘ کا کردار دہشت گردی کے لیے ایک حقیقت ہے۔ اس سلسلے میں نیٹ ورک پکڑے جاچکے ہیں، کلبھوشن اعتراف کرچکا ہے۔ ایک عرب نیوز کی جانب سے کہا گیا کہ اس حملے کے ذمے داری داعش نے قبول کی ہے تو داعش کو بنانے والے کون ہیں؟ یہ وہی ہاتھ ہیں جنہوں نے طالبان پاکستان کو بنایا تھا۔ داعش کے بارے میں جنوری 2018ء میں عالمی میڈیا نے خبر دی تھی کہ عراق اور شام میں کئی سال کی گھمسان کی جنگ کے بعد داعش کا نام نہاد رہنما البغدادی شکست کھا چکا ہے، لیکن اُس کی شکست کے باوجود عراق اور امریکا کی حکومتیں اس کو پکڑنے میں ناکام رہیں۔ گزشتہ برس کئی دفعہ اس کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا، روسی فوج نے بھی فضائی حملے میں اس کو مارنے کا اعلان کیا لیکن اس اعلان کے بعد بغدادی ایک مرتبہ پھر اپنی آڈیو ٹیپ کے ذریعے نمودار ہوگیا جس میں اس نے اپنے حامیوں اور جنگجوؤں کو ڈٹے رہنے کا حکم دیا۔
معلوم یہ ہوتا ہے کہ بغداد کو کہیں اور کسی اور پروگرام پر عمل درآمد کے لیے بچا کر رکھا گیا تھا۔ امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے مطابق البغدادی اور اس کے ساتھی ’’جہنمی‘‘ بدلہ لینے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ اس کی ’’جہنمی‘‘ منصوبہ بندی کے بارے میں تو پتا لگا لیا جاتا ہے لیکن روس، امریکا اور دیگر انتہائی جدید ٹیکنالوجی رکھنے والے ملک اُس کی موجودگی کے مقام اور اس کے حاصل ہونے والے اسلحے کے بارے میں پتا لگانے میں ناکام رہتے ہیں۔ دراصل یہ ساری ایسی ملی بھگت ہے جس کے بیک وقت کئی مقاصد ہیں۔ ان میں بنیادی مقصد تو اپنے اسلحہ ساز اداروں کے لیے گاہکوں کی تیاری ہے، چناں چہ ایک پروگرام کے تحت دنیا میں تنازعات کو ہوا دی جاتی ہے۔ دونوں طرف کے لوگوں کو اپنے اسلحے کی فروخت کے لیے اپنی حمایت کا یقین دلایا جاتا ہے، اس میں دنیا کی مہذب حکومتیں ملوث ہیں۔ یہ اسلحہ مافیا داعش اور اس جیسی تنظیمیں بناتے ہیں۔ آخر کیوں نہیں مہذب دنیا کے ممالک بیٹھ کر اسلحے کی خرید و فروخت سے متعلق قوانین بناتے۔ تا کہ اسلحے کو ملکوں کی افواج کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ بیچنا اور خریدنا ممنوع قرار دیا جاسکے اور دنیا کے امن کو محفوظ کیا جاسکے۔ پچھلے ماہ دفاعی امور کے تجزیہ کار امجد شعیب کا کہنا تھا کہ بعض بیرونی قوتیں داعش کو استعمال کررہی ہیں، تحریک طالبان پاکستان اور اس کے دیگر دھڑوں کی مدد اور حمایت سے داعش کا پاکستان میں کارروائی کا خطرہ ہے۔ پچھلے مہینے ہی امریکا نے افغان حکومت اور طالبان امن مذاکرات کے لیے پاکستان سے مدد کی اپیل کی تھی لیکن پاکستان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ایسے علاقے ہیں جہاں داعش اور پاکستان سے فرار ہونے والے کالعدم طالبان گروپ کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا کام دے رہے ہیں اور بھارت پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے افغانستان میں پناہ لینے والے دہشت گردوں کو مدد دے رہا ہے۔
ادھر طالبان امریکا سے براہ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، وہ افغان حکومت سے اس وقت تک بات چیت سے انکار کرتے ہیں جب تک تمام امریکی اور ناٹو فوجی افغانستان سے واپس نہیں چلے جاتے۔ افغانستان کے تنازع میں امن کی خواہش امریکا بہادر کے دل میں بہت شدت سے موجود ہے لیکن اس کے لیے وہ راستہ اپنی مرضی کا اختیار کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے پاکستان پر ہر طرح سے دباؤ ڈالنا وہ مقصد کے حصول کے لیے اہم سمجھتا ہے۔ پاکستان میں انتخابات سے قبل دہشت گردی کی یہ لہر ووٹروں کو بیلٹ بکس سے دور رکھنے اور ملک کو کمزور کرنے کی سازش ہے۔ نگراں حکومت کو ملک میں بہتر سیکورٹی ایک انتظامات کرنے چاہئیں، بجائے اس کے کہ ہزاروں سیکورٹی کے اہلکار ایک شہر کو بند کرنے پر لگادیے جائیں۔