وقت کتنا بدل گیا ہے‘ لیکن الیکشن کمیشن کھڑا ہے

305

پاکستان کے پہلے عام انتخابات 1970 کو ہوئے ‘ ذوالفقار علی بھٹو تلوار کے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں اترے تھے‘ مقابلے میں سبز ہے سبز ہے ایشیاء سبز ہے کا نعرہ تھا‘ جماعت اسلامی میدان میں تھی اور شوکت اسلام کے جلوس نے نیندیں حرام کردی تھیں‘ ان انتخابات سے پہلے ملک میں ایک بڑا انتخابی معرکہ ہو چکا تھا جس میں ایواب خان اور فاطمہ جناح مدمقابل تھے‘ کراچی سے خیبر تک فاطمہ جناح کو دائیں بازو کی لبرل اور دینی جماعتوں نے حمایت دی تاہم ووٹ کے مقابلے میں ایواب خان کی بندوق جیت گئی اور انتخابی نتائج کے بعد کراچی میں چل بھی گئی تب الیکشن کمیشن میں بہت کم سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ تھیں اس کے بعد بڑا معرکہ 1977 کو ہوا‘ یہ ملک کے پہلے عام انتخابات تھے جسٹس عبدالستار اس وقت چیف الیکشن کمشنر تھے یہ دوسرے چیف الیکشن کمشنر تھے جو عدلیہ سے آئے تھے‘ ان سے پہلے سول سروس سے اس عہدے کے لیے کسی افسر کی نامزدگی ہوا کرتی تھی۔
1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان کی اسمبلی کی ایک سو اکسٹھ اور مغربی پاکستان اسمبلی کی ایک سو چالیس نشستوں کے لیے معرکہ ہوا‘ عوامی لیگ‘ جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ‘ پیپلزپارٹی اس وقت بڑی سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتی تھیں‘ جے یو پی اور جے یو آئی مسلک کے اعتبار سے اپنا خاص حلقہ اثر رکھتی تھیں یہ پہلے انتخاب تھے جن میں بھٹو نے اپنے سیاسی مخالفین کے لیے قابل اعتراض زبان استعمال کی لیکن جواب میں کوئی ایسا ردعمل نہیں ہوا‘ مولانا مودودی سمیت سب رہنماؤں نے اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا اس وقت بھی الیکشن کمیشن آج کی طرح اپنے اختیارات کی تلاش میں تھا‘ الیکشن کمیشن ہمیشہ دباؤ میں رہا‘ یہ تاریخ ہے‘ اور اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا‘ سیاسی جماعتوں نے آج بھی یہی وتیرہ اپنایا ہوا ہے‘ لیکن زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن نہیں بدلا‘ ہاں البتہ یہ کمزور سیاسی جماعتوں کے مقابلے بہت بااختیار ہے اور مضبوط بھی‘ ان کے لیے اسے سارے ضابطے یاد ہیں اس وقت 122 سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہیں گزشتہ انتخابات سے پہلے 200 سے زاید سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ تھیں، بیش تر رجسٹرڈ جماعتوں کو قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں کوئی رکنیت حاصل نہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ 1970ء سے 1990ء تک کی تین دہائیوں میں انتہائی اہم کردار ادا کرنے والی جماعتیں بھی اس بار پہلی مرتبہ الیکشن کمیشن کی فہرست سے باہر ہو گئی ہیں ان جماعتوں میں نوابزادہ نصراللہ خان کی پاکستان جمہوری پارٹی، ملک قاسم کی پاکستان مسلم لیگ (قاسم گروپ) اور سابق ائر مارشل اصغر خان کی پاکستان تحریکِ استقلال کے علاوہ خاکسار تحریک‘ حنیف رامے کی مساوات پارٹی‘ فاروق لغاری کی ملت پارٹی قابل ذکر ہیں نواب زادہ نصراللہ خان تو ایوب خان کے زمانے سے متحرک تھے اور محترمہ فاطمہ جناحؒ کے زبردست حامیوں میں شامل تھے جماعت اسلامی کے امیر مولانا مودودی کے ساتھ مل کر ایواب خان کی آمریت کے مقابلے کے لیے فاطمہ جناح کے لیے انتخابی مہم چلائی‘ لاٹین کے انتخابی کو گھر گھر پہنچایا آج یہ نشان اے این پی کے پاس ہے‘ ماضی میں انتخابی سیاست میں شریک رہنے والے اہم رہنماؤں کی صفت ہوا کرتی تھی کہ وہ اپنے مخالف امیدوار کو کبھی اخلاق سے گری ہوئی بات سے مخاطب نہیں کرتے تھے۔ ماضی میں چودھری ظہور الٰہی‘ مرحوم اقبال احمد خان‘ پیر پگارہ‘ ولی خان‘ اکبر بگٹی‘ جیسے رہنماء انتخابی سیاست میں رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ کبھی کسی نے اخلاق سے گری ہوئی بات کی ہو یا کوئی ایسا الزام لگایا ہو‘ یہ کام بھٹو نے کیا‘ شیخ رشید احمد بھی اس کام میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے‘ الطاف حسین بھی یہی کام کرتے رہے‘ عمران خان کے ساتھ بھی یہ صفت جڑی ہوئی ہے آج کے انتخابی میدان کے کھلاڑی اور ماضی کے کھلاڑیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ان میں لیڈرز جیسی صفات تلاش کی جائیں تو شرمندگی ہوتی ہے۔
انتخابی میدان جو لوگ معرکہ آرائی کر رہے ہیں ان کا ایک نقشہ گلی محلے میں نظر آتا ہے کھیل کے میدان ختم ہونے سے ہماری گلیاں ہی کھیل کامیدان بنی ہوئی ہیں اور بچے ان میں کھیلتے ہیں اُن میں سے بھی ایک لیڈر ہوتا ہے جو کھیل کھلا رہا ہوتا ہے۔ اور دوسرے بچے اُس سے پوچھ پوچھ کر کھیلتے ہیں‘ ہمارے ہاں یہ بھی رواج ہے جس نے پارٹی بنائی وہی اس کا سربراہ بھی ہے‘ گلی کا بھی یہی اصول ہے‘ جو بچہ کھیل کا سامان لاتا ہے کپتان بھی وہی ہوتا ہے اور پہلی باری بھی وہی لیتا ہے۔ آج سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالیں ان میں کتنی ہیں جو گلی کے بچوں سے مختلف نظر آتی ہیں بچوں اور بڑوں میں فرق یہ ہے کہ بچے لیڈروں کی طرح قوم کی دولت سے نہیں کھیل رہے ہوتے نہ ہی ان کی کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی ہوتی ہے‘ نہ کوئی آف شو کمپنی‘ اور نہ ہی سیاسی جماعت‘ ہمارا ملک شاید دنیا میں ایک منفرد ملک ہے کہ جہاں بیورو کریسی بھی سیاست میں رہتی ہے‘ اس کا مشاہدہ کرنا ہوتو صوبائی اسمبلی اور مرکزی پارلیمنٹ میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو دیکھ لیا جائے کہ سیاسی رہنماؤں کو یہ کیسے کیسے مشورے دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بیورو کریسی کے یہ چالاک مہرے اپنے لیے ترقی کی راہیں تلاش کرتے ہیں اور دوسروں کی راہ روکتے رہتے ہیں‘ سیاسی رہنماء بھی ان کی باتوں میں آکر استیصال کرتے جاتے ہیں، جب نیب کے دروازے کھلتے ہیں تو یہی لوگ سلطانی گواہ بن جاتے ہیں اور جیل میں صرف عوامی لیڈر جاتا ہے‘ اور پیچھے نعرے رہ جاتے ہیں اور ضمانتی‘ ایسے ہی رہنماؤں کی وجہ سے کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا لیکن پاکستان تو ترقی کر رہا ہے‘ جی ہاں ہم مقروض ہیں عالمی بینک کے‘ اور مسلسل قرضے کی واجب الادا قسطیں جمع کرارہے ہیں۔
کسی بھی انتخابات کے نتائج ملک کو آگے نہیں لے کر گئے‘1977 میں انتخابات ہوئے اس وقت سعد سعود جان‘ چیف الیکشن کمشنر تھے‘ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ انتخابات کیسے کرانے ہیں‘ سن کچھ بھٹو حکومت کر رہی تھی‘ اس کے بعد 1985 میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو ایس اے نصرت چیف الیکشن کمشنر تھے‘ اس زمانے میں انتخابات کی کریڈیبلٹی بنانے کے لیے جنرل ضیاء کی کابینہ کے سارے وزراء کو شکست دینا پڑی‘ اف کتنا مشکل کام کرنا ہوتا ہے الیکشن کمشنر کو‘ غرض یہ کہ الیکشن کمیشن کو جسٹس عبدالرحمن کے بعد آج تک سربراہی کے لیے سابق جج ہی ملا‘ انتخابی نتائج اٹھا کر دیکھ لیں الیکشن کمیشن میں کسی سیاسی جماعت کو انصاف نہیں ملا نہ انصاف ہوتا ہوا نظر آیا‘ جس طرح بادشاہ نے کہا کہ ویسے ہی کیا‘ جنرل مشرف کے دور میں جسٹس ارشاد حسن خان اس منصب پر آئے‘ اپنے ہر ملاقاتی سے کہتے تھے کہ میڈیا میں یہی بات کرنی ہے کہ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنایا جائے ہمارے سیاسی رہنماء بھی توتے کی طرح رٹے رٹائے جملے ملاقات کے بعد میڈیا کے سامنے بولتے رہے لیکن جسٹس ارشاد حسن خان نے جنرل مشرف ہی کو انصاف دیا سیاسی جماعتوں کو تو ان کے دور میں مایوسی ہی ملی‘ 2007 میں بھی ان کی خواہش تھی کہ منصب پر رہیں لیکن اس بار یہ ذمے داری اگلے جسٹس قاضی فاروق کے حصے آئی‘ اور انہیں راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کا سانحہ دیکھنے کو ملا‘ حالاں کہ ہر بار الیکشن کمیشن نگران حکومت سے کہتا ہے کہ امیدواروں کو سیکورٹی فراہم کی جائے۔ آج کیا صورت حال ہے؟ اس کا جواب پچیس جولائی کو نہیں بلکہ بہت پہلے مل چکا ہے۔