مجلس عمل سے خوف کس کو ہے؟

574

اب یہ بحث تو بے کار ہے کہ کس پارٹی کا منشور کتنا اچھا ہے۔ کس نے کتنی سیٹوں پر لوگ اتارے ہیں کس کے پاس کتنے الیکٹ ایبل ہیں۔ بلکہ اب ووٹر کے امتحان کا وقت ہے۔ یہ سوال کرنے کا وقت ہے کہ آپ کی پارٹی جب اقتدار میں تھی تو اس نے کیا کام کیے۔ عوام کا کون سا مسئلہ حل کرایا۔ اب انتخاب احتساب کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ ایک مرتبہ رکن قومی یا صوبائی اسمبلی بننے والے سے گزشتہ پانچ سال کا حساب ضرور لیا جائے۔ جس جس کو جس سطح پر بھی نمائندگی کا موقع ملا اس نے اس کے ذریعے عوام کو کیا فائدہ پہنچایا۔ اب کی بار عوام کا موڈ کچھ اسی طرح کا لگ رہا ہے۔ درجنوں ٹی وی پروگرام دیکھے عوامی جرگوں کی شکل میں ان سے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ عوام کا موڈ یہی ہے کہ پہلے پوچھیں کہ اب تک کیا گل کھلائے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ٹی وی چینلز میں اسلام اور دین بیزار لوگوں کی بھرمار اور قبضہ ہے اور یہ لوگ دین دار لوگوں اور دینی و مذہبی جماعتوں کو بادل نخواستہ موقع دیتے ہیں۔ لیکن دوسری سیاسی جماعتوں کے جرگوں میں ان کے اپنے بلائے ہوئے عوام ان کا جو حشر کرتے ہیں ان سے یہ نتیجہ سامنے آرہاہے کہ ووٹر رفتہ رفتہ زبان، علاقے، شخصیت اور پارٹی کے سحر سے نکل رہا ہے۔ اگرچہ رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کا کام گلیوں کی صفائی، گٹر اور سڑکیں بنانا نہیں ہوتا۔ لیکن جنرل ضیا کے زمانے سے ایسا ہی ہورہاہے اس لیے لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ نے ہمارے لیے کیا کیا۔ ایسے ہی ایک شو میں جو عارف علوی صاحب کے حلقے میں ان کے اپنے لوگوں کی مدد سے سجایا گیا تھا ڈاکٹر دانش میزبان تھے جتنے لوگوں نے بھی سوالات کیے ان کا ایک سوال مشترک تھا۔ اب تک شکل کیوں نہیں دکھائی۔ کرپشن پر ان کے موقف پر لوگوں کا سوال تھا کہ پھر ساری پارٹیوں کے کرپٹ لوگوں کو اپنے ساتھ کیوں رکھا ہوا ہے۔ دنیا بھر کے حکمرانوں کی سادگی کی مثالیں دیتے ہیں لیکن خود عمرہ بھی پرائیویٹ طیارے میں کرتے ہیں۔
یہ تو خیر عوام کا موڈ تھا۔ ایک سوال میڈیا میں اٹھایا جارہاتھا۔ سماجی میڈیا نے بھی اس کو خوب اٹھایا بلکہ پھیلا یا۔ اور اب ہر زبان پر سوال ہے کہ مولانا فضل الرحمن سے اتحاد کیوں کیا۔ ارے وہ تو مولانا ڈیزل ہیں، ارے وہ تو کرپٹ ہیں۔ ہم تو سوال پوچھ لیتے ہیں کہ پھر کیا کسی اسمگلر سے اتحاد کرتے۔ عزیر بلوچ سے کرتے، آصف زرداری سے یا شرجیل میمن سے کرتے لیکن چلیں اس کو چھوڑیں۔ اس سوال کی طرف واپس آجاتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن سے اتحاد کیوں کیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ صرف مولانا فضل الرحمن سے اتحاد نہیں ہے ان کی جماعت سمیت دوسری دینی جماعتوں سے بھی اتحاد ہے۔ اب اس اتحاد کی خصوصیت نہیں دوسری جماعتوں کے بارے میں تو کوئی سوال نہیں پوچھتا۔ لیکن مولانا کی جماعت میں کوئی پاناما زدہ لیڈر نہیں ہے، کوئی لوٹا اس میں کسی مسترد شدہ پارٹی سے ٹوٹ کر نہیں آیا۔ اس پارٹی میں کرپشن کے الزام میں سزا یافتہ لوگ نہیں ہیں۔ اس کے برعکس اس میں علمائے کرام ہیں۔ عالم دین ہیں، مشترکات کی بنیاد پر قائم یہ اتحاد نیا بھی نہیں ہے۔ 16 برس قبل قائم ہوا تھا بوجوہ غیر فعال ہوگیا اب اس کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے اس لیے بحال کیا گیا اور دوسری طرف کا حساب خود کرلیں۔ کس پارٹی میں کتنے لوٹے ہیں، کتنے سابق وزرا ہیں، کس کو اپنی پارٹی میں آنے سے قبل کیا کہا جاتا تھا اور اب کیا کہا جاتا ہے۔ کبھی چپراسی نہیں رکھتے تھے ایسی چپ اور راس دونوں میں ان کو راس آرہے ہیں۔ کرپشن کے بادشاہ کو سینیٹ میں سارے ووٹ ڈلوادیے۔ خیر اس کو بھی چھوڑیں پانچ برس مولانا فضل الرحمن کے سب سے بڑے دشمن کی مولانا کے صوبے میں حکومت رہی۔ وہ عقل مند شخص کہتاہے کہ مولانا ایک مقناطیس ہیں جہاں حکومت ہوتی ہے وہ وہاں چپک جاتے ہیں۔ یہ عقل مند آدمی ملک پر حکمرانی کی باتیں کررہاہے اسے یہ نہیں پتا کہ مقناطیس اپنی جانب کھینچتا ہے خود جاکر نہیں چپکتا۔ اس صوبے کے وزیراعلیٰ نے پانچ برس میں ایک ریفرنس بھی مولانا کے خلاف نہیں بھیجا۔ اس ملک کا تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والا جیل میں ہے۔ سندھ کا سابق وزیر اطلاعات جیل میں ہے، سندھ کا سابق وزیر ڈاکٹر عاصم جیل میں ہے۔ آصف زرداری کے خلاف نیب ، ایف آئی اے اور عدالتوں میں مقدمات ہیں۔ میڈیا مہم سے قطع نظر مولانا کے خلاف کوئی مقدمہ کیوں نہیں ہے۔ کوئی تو آگے بڑھ کر اس دعوے یا الزام کے حق میں کھڑا ہوجائے۔!!! ایسا کوئی نہیں ہے کیونکہ یہ صرف دین سے بیزاری ہے۔ مجلس عمل سے خوف کس کو ہے اور کیوں؟ مولانا کے سیاسی فیصلوں کو اچھا اور برا کہاجاسکتا ہے، ان سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے لیکن کسی ثبوت کے بغیر لوٹوں، لٹیروں، لفافوں والوں کی جانب سے الزامات ہرگز قابل قبول نہیں۔
ابتدا میں ہم نے یہ بات لکھی ہے کہ اب لوگ کارکردگی اور احتساب کی بنیاد پر ووٹ دیں گے۔ تو یہ صرف عارف علوی کے معاملے میں نہیں ہورہا۔ ڈاکٹر فاروق ستار، متحدہ بہادر آباد، پی پی پی، سب کو عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔ میڈیا کو تو بتا بھی نہیں رہا بلکہ چھپارہا ہے کہ کس کو کہاں مزاحمت کا سامنا ہے۔ جتنا بڑا جلسہ متحدہ مجلس عمل نے اتوار 15 جولائی کو کراچی میں کیا ہے اس کا نصف بھی کوئی سیکولر پارٹی کرلیتی تو میڈیا آسمان سر پر اٹھالیتا۔ لیکن الیکٹرونک میڈیا نے اسے ایسے دکھایا جیسے کوئی معمول کا واقع ہو۔ کراچی میں مجلس عمل کا جلسہ غیر معمولی جلسہ تھا۔ اس میں کراچی کے باہر سے لوگ لائے نہیں گئے تھے جتنے بھی تھے کراچی سے تعلق رکھتے تھے اور خود آئے تھے۔ ہمیں اوریا مقبول جان کا ایک تجزیہ پسند آیا جو حسب حال ہے اور مولانا فضل الرحمن نے بھی جلسہ عام میں کم و بیش یہی بات کہی ہے۔ اوریا مقبول نے کہاکہ ہمارے معاشرے نے مولوی کو تین کام دیے ایک نماز پڑھانا، دوسرے جنازے پڑھانا اور تیسرے نکاح پڑھانا۔ اور مولوی کسی قسم کی سستی کے بغیر تینوں کام باقاعدگی سے بروقت کررہاہے۔ آج تک کوئی جنازہ اس وجہ سے تاخیر کا شکار نہیں ہوا کہ مولوی ہڑتال پر تھے۔ بارش طوفان آندھی سیلاب کسی بھی صورت فجر اور عشا کی نمازیں بھی اور اذانیں بھی تاخیر کا شکار نہیں ہوتیں۔ تو اور کیا کرے مولوی۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی یہی کہاکہ 70 برس سے ملک مذہب بیزار طبقے کے قبضے میں ہے اور آج جنگ یہی ہے۔ مذہب کے حامیوں اور مذہب بیزار طبقے کی۔ پھر مذہب کی علامت اور مذہب سے تعلق رکھنے والے ہر طبقے کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اگر جواباً مذہب بیزاروں کے لوٹوں کی فہرست بنانا شروع کردیں کل کے چور کو آج سر پر بٹھایا جارہاہے ان کی تصویریں چھاپیں تو کہا جائے گا کہ یہ کوئی اخلاقیات ہے۔ ابھی ذاتی کارناموں کا ذکر نہیں آیا جو اخلاق اور مذہبی اقدار کے قطعاً شافی ہیں یہ سب سڑک پر کھڑے ہوں گے۔