انتخابات میں تاخیر کا خدشہ

314

عام انتخابات یں صرف چھ دن رہ گئے ہیں بلکہ 5 ہی دن سمجھیں کیوں کہ 25 جولائی تو معرکے کا دن ہے۔ اس کے باوجود بہت سے معاملات ابھی تک ادھورے ہیں۔ متعدد امیدواروں کے خلاف عذرداریاں اور مقدمات زیر سماعت ہیں اور جب تک فیصلے نہیں ہوجاتے ان امیدواروں کے نام بیلٹ پیپر پر شایع نہیں ہوسکتے۔ اگر دو، تین دن میں بھی فیصلے ہوجائیں تو الیکشن کمیشن کے لیے نئے بیلٹ پیپرز کی اشاعت آسان نہیں ہوگی جس سے بہت سے امیدوار الیکشن میں حصہ لینا تو کجا، ا پنی مہم بھی دل جمعی سے نہیں چلاسکتے کہ کیا پتا فیصلہ ان کے خلاف آجائے۔ چار حلقوں میں انتخابات روکنے کا اعلان جاری ہوچکا ہے۔ 108انتخابی عذرداریاں کسی فیصلے کی منتظر ہیں۔ اس صورتحال میں خدشہ ہے کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اگر انتخابات مقررہ وقت پر نہ ہوئے تو نئے مسائل سر اٹھائیں گے اور نیا تنازع اٹھ کھڑا ہوگا۔ چند دن رہ جانے کے باوجود سیاسی وفاداریاں بدلنے اور ادھر سے ادھر جانے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے۔ عین موقع پر بڑے پیمانے پر وفاداریاں بدلنا شک و شبہ سے خالی نہیں ہے۔ دیکھنے میں آرہاہے کہ زیادہ تر افراد پاکستان تحریک انصاف میں پناہ لے رہے ہیں۔ سیاسی خانہ بدوش یا ’’ہری چگ‘‘ یہ کام اس وقت کرتے ہیں جب کسی پارٹی کے بارے میں یقین دلادیا جائے کہ اقتدار اسی کو دینے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہاہے کہ ان پر کسی خاص پارٹی میں شمولیت کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہے۔ دباؤ کس کی طرف سے ہوسکتا ہے، یہ محتاج وضاحت نہیں۔ بدھ 18 جولائی کو عدالت عالیہ اسلام آباد کے جج جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے تو ججوں پر دباؤ ڈالے جانے اور مرضی کے بینچ بنوانے کی کوشش کا انکشاف کرتے ہوئے فوج کے سالار سے کہاہے کہ وہ اپنے لوگوں کو روکیں۔ غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت بڑھتی جارہی ہے لیکن جو سیاست دان دباؤ قبول کرلیں انہیں سیاست سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔ کیونکہ اگر منتخب ہوگئے تو بھی وہ کسی کے دباؤ میں رہیں گے اور عوام اور ملک کی خدمت کے بجائے، جس کی توقع کم ہی ہے، کسی اور کی خدمت کریں گے۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں یہ شکایت کررہی ہیں کہ ایک مخصوص پارٹی کو ہر طرح کی چھوٹ دی گئی ہے، اسی کے لیے میدان ہموار کیا جارہاہے جب کہ دوسری جماعتوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ بہت سے رائے دہندگان بھی یہ دیکھتے ہیں کہ کس کا حکومت میں آنے کا امکان ہے چنانچہ وہ بھی اسی کے حق میں اپنی رائے استعمال کرتے ہیں ورنہ تو ایک عام ووٹر بیلٹ باکس میں اپنا ووٹ ڈالتے ہوئے ہر دباؤ سے آزاد ہوتا ہے، دباؤ اوپر کی سطح پر ہوتا ہے۔ ووٹ دینے کے لیے برادری کا تعصب بھی اہم کردار ادا کرتا ہے اور گاؤں، دیہات میں وڈیرے، جاگیردار، زمیندار کا خوف ضمیر کی آواز پر حاوی ہوجاتا ہے۔ برسوں سے یہی صورتحال ہے۔ کسی یقین دہانی ہی پر عمران خان اگلا وزیراعظم ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ گویا امپائر کی انگلی ان کے حق میں اٹھ گئی ہے۔ ان کا ماضی کبھی قابل تحسین نہیں رہا اور ان کی شہرت ایک پلے بوائے کی سی رہی ہے جس کا اعتراف وہ خود بھی کرچکے ہیں۔ یہ فطرت ابھی بدلی نہیں ہے۔ چند ماہ کے لیے ان کی رفیق حیات بننے والی ریحام خان نے ان کے حوالے سے کئی الزامات عاید کیے ہیں۔ ان الزامات میں اگر دو فی صد بھی سچائی ہے تو عمران خان کا اقتدار میں آنا ایک نئی خرابی کی بنیاد رکھے گا۔ ماضی میں کئی شرابی، زانی اور ڈکیت پاکستان پر حکمرانی کرچکے ہیں اور عوام نے کان دباکر ان کا اقتدار تسلیم کرلیا ہے۔ عمران خان کے علاوہ آصف علی زرداری اور ان کے برخوردار بھی حکومت کے خواب دیکھ رہے ہیں لیکن عوام میں کچھ کچھ شعور آرہا ہے اور وہ امیدواروں سے حساب لینے پر تل گئے ہیں۔ انہیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ ان کا ایک ووٹ پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے اور یہ کام فوجی حکومت کے بس کا نہیں۔ اس کا تجربہ بارہا کیا جاچکا ہے۔ عمران خان نے بلا سبب یہ اعلان نہیں کیا ہے کہ ’’فوج واحد ادارہ ہے جو شفاف ہے۔‘‘ حالانکہ فوج میں کرپشن کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں لیکن احسان کا بدلہ دینا اچھی بات ہے۔ عمران خان کو اپنی جیت کا یقین ہے۔ کہتے ہیں کہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد عالمی سطح پر تعلقات کو مزید فروغ دوں گا۔ یہ وضاحت بھی کردیں کہ بھارت، امریکا اور اسرائیل سے تعلقات کو کس طرح مزید فروغ دیں گے۔ ابھی تک جو صورتحال سامنے آئی ہے اس سے لگتا ہے کہ عام انتخابات میں واضح اکثریت کسی کو بھی نہیں ملنے والی۔ لیکن ابھی تو بروقت انتخابات ہی مشکوک ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان کا کہناہے کہ عدالتوں میں مقدمات بروقت انتخابات کے لیے مسئلہ ہیں۔ تو کیا تاریخ بڑھادی جائے گی یا معاملہ غیر معینہ مدت کے لیے کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ اس کا انحصار ان مقتدر قوتوں پر بھی ہے جو اپنا نقشہ جمائے بیٹھے ہیں۔