۔13شہباز شریف کی ڈائری کا ایک ورق

357

جولائی۔ میں ناشتہ کرنے کے بعد ابھی اخبارات پڑھ ہی رہا تھا کہ لندن سے اچانک بھائی جان کا فون آگیا۔ میں نے موبائل آن کیا تو بھائی جان کی آواز کانوں میں گونجی ’’شہباز میں نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ اس امید پر کیا ہے کہ تم کم از کم پچاس لاکھ لوگوں کو لے کر ائر پورٹ پر پہنچوں گے اور میرا والہانہ استقبال کرو گے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ نگراں حکومت میرے استقبال کو روکنے کے لیے بہت سرگرمی دکھارہی ہے، جگہ جگہ چھاپے مارے جارہے ہیں، گرفتاریاں ہورہی ہیں، لاہور میں ائر پورٹ کو جانے والے تمام راستے کنٹینرز لگا کر بند کردیے گئے ہیں۔ خیر یہ کام تو ہم بھی کرتے تھے لیکن اس سے کیا ہوتا ہے جب عوام کا سیلاب اُمڈ آئے تو کوئی رکاوٹ برقرار نہیں رہتی۔ میں حیران ہوں کہ جس دن میری غیر موجودگی میں مجھے سزا سنائی گئی اُس دن نہ عدالت کے باہر کوئی احتجاج ہوا، نہ اسلام آباد اور لاہور میں کوئی احتجاجی ریلی نکالی گئی، میں نے اسلام آباد میں لیگیوں کے کان کھینچے ہیں۔ حنیف عباسی بڑا متوالا بنتا ہے لیکن وہ بھی منظر سے غائب تھا، سنا ہے کہ اس کے خلاف ایفی ڈرین کیس کا فیصلہ آنے والا ہے اس لیے چھپتا پھر رہا ہے، میں مانتا ہوں کہ تم نے بہت جرأت دکھائی اور لاہور میں پریس کانفرنس کرکے عدالت کے فیصلے کو مسترد کردیا اور اعلان کیا کہ لاہور کے عوام ائرپورٹ پر میرا عدیم النظیر استقبال کرکے اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ پتا نہیں تم نے ’’عدیم النظیر‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا یا نہیں، یہ لفظ ابھی عرفان صدیقی نے میرے کان میں ڈالا ہے، اس لفظ سے مجھے بے نظیر بھٹو کا لاہور میں استقبال یاد آگیا۔ بس میرا استقبال بھی ویسا ہی ہونا چاہیے۔ بس بھائی جان بول رہے تھے اور میں سن رہا تھا لیکن میرا دماغ چکرا رہا تھا، میرا پورا بدن پسینے میں ڈوبا ہوا تھا، اتنے میں موبائل میرے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گرا اور میں صوفے کی پشت سے سر لگا کر بیٹھ گیا۔ بھائی جان نہ جانے کب تک بولتے رہے لیکن مجھ میں مزید سننے کی ہمت نہ تھی۔ تہمینہ نے میری یہ حالت دیکھ کر میری پیشانی پر ہاتھ رکھا تو بولی، آپ کو تو ٹھنڈے پسینے آرہے ہیں، میاں صاحب نے آپ کو کیا کہہ دیا۔ میں نے اسے بتایا کہ بھائی جان چاہتے ہیں کہ میں پچاس لاکھ لوگوں کو لے کر ائر پورٹ پر پہنچوں۔ ہنس کر کہنے لگی ’’اس مشکل سے نکلنے کی ایک ترکیب میرے پاس موجود ہے، آپ ہاؤس اریسٹ کرالیں جان چھوٹ جائے گی‘‘۔ ترکیب تو اچھی تھی میں اس پر غور کر ہی رہا تھا کہ پھر موبائل کی گھنٹی بجنے لگی، اب کی دفعہ اسکائپ کال تھی، میں نے اسکائپ آن کیا تو تہمینہ کو بھائی جان میرے پاس بیٹھا دیکھ کر بولے یہ تمہیں کیا پٹی پڑھا رہی ہے، میں نے کہا بھائی جان یہ مجھے کیا پٹی پڑھائے گی میں خود اسے پٹی پڑھاتا رہتا ہوں۔ دراصل جب سے میں نے تہمینہ سے شادی کی ہے بھائی جان نے اسے پسند نہیں کیا، وہ کہتے ہیں کہ تمہیں مصطفی کھر کی مطلقہ سے نکاح نہیں کرنا چاہیے تھا۔ حالاں کہ تہمینہ نے کھر سے خلع لیا تھا اسے طلاق نہیں ہوئی تھی۔ خلع کے بعد وہ پریشان تھی میں نے اسے سہارا دیا۔ ذہین عورت ہے اس سے مجھے بہت مدد ملتی ہے اب اس نے جو ترکیب سمجھائی ہے اس کا جواب نہیں۔ بہرکیف بھائی جان مجھ سے مخاطب ہو کر بولے ’’شہباز میں نے سوچا ہے کہ پچاس لاکھ لوگوں کے لیے شارٹ نوٹس پر گھر سے باہر آنا مشکل ہوگا، گرمی کا موسم ہے اس لیے تم تعداد کچھ کم کرلو، بیس لاکھ اچھا نہیں دس لاکھ، تم نے لاہور کو پیرس بنادیا، پنجاب کا سارا بجٹ لاہور پر خرچ کرتے رہے، کیا تمہارے کہنے پر دس لاکھ لاہوریے بھی باہر نہیں نکل سکتے‘‘۔ اب میں بھائی جان کو کیا بتاتا کہ مون سون کی پہلی بارش ہی نے میرے پیرس کا پول کھول دیا ہے، میری اورنج ٹرین بھی زمین بوس ہوگئی ہے، میں نے بھائی جان کا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا اور انہیں یقین دلایا کہ وہ گھبرائیں نہیں لاہور ائر پورٹ پر ان کا شایان شان استقبال ہوگا۔ پھر کال کٹ گئی۔
تہمینہ جو منہ بنا کر کچھ دور بیٹھ گئی تھی دوبارہ میرے پاس آکر بولی اسلام آباد سے میری سہیلی کا فون آیا تھا بتا رہی تھی کہ وہاں سب لیگی لیڈروں نے ہاؤس اریسٹ کرالی ہے اور بعض نے تو پولیس کو کہہ کر کوٹھی کے گیٹ پر تالے بھی لگوالیے ہیں، اب وہ مزے میں ہیں، آپ بھی ہاؤس اریسٹ کے بعد خود کو مقفل کرلیں۔ میڈیا پر اس کا خوب چرچا ہونا چاہیے، بریکنگ نیوز بار بار چلنی چاہیے، آپ نے میڈیا میں اتنے مشٹنڈے پال رکھے ہیں وہ آخر کس کام آئیں گے۔ اس کی باتوں سے میرا حوصلہ بڑھ گیا، میں نے اس کی ترکیب پر عمل کرنے کے لیے آئی جی کو فون کیا کہ پولیس بے تحاشا لوگوں کو پکڑ رہی ہے، گھروں پر چھاپے مار رہی ہے، آخر اسے ہم سے کیا خدشہ ہے، ہم امن پسند لوگ ہیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میری قیادت میں ریلی نکلنے سے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوگا تو میں رضا کارانہ طور پر ہاؤس اریسٹ ہونے کو تیار ہوں۔ پھر ریلی خود بخود منتشر ہوجائے گی اور حکومت کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا لیکن اس ستم ظریف نے میری بات سُنی اَن سُنی کردی۔ بولا میں یہ گستاخی نہیں کرسکتا آپ اپنا کام کریں ہم اپنا کام کریں گے۔
میں نے علاقے کے ایس ایس پی سے بات کی وہ کمبخت کہنے لگا یہ حساس معاملہ ہے میں آئی جی سے ہدایت لیے بغیر یہ قدم نہیں اُٹھا سکتا۔ لیجیے بات ختم ہوگئی۔ تہمینہ کو بتایا تو وہ بولی آپ کی قسمت ہی خراب ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا، ریلی میرے مقدر میں لکھی تھی میں اپنی کار میں قدرے تاخیر سے داتا دربار پہنچا وہاں لوگوں کی خاصی تعداد جمع تھی، انہوں نے مجھے دیکھ کر نعرے لگائے، میں نے جواب میں ہاتھ ہلائے لیکن میں کار سے باہر نہ نکلا۔ کارکنوں نے اشارہ کیا کہ میں کار آگے بڑھاؤں اور ریلی چل پڑی۔ پیدل لوگوں کی بڑی تعداد ساتھ ساتھ چل رہی تھی، انہوں نے نواز شریف کی تصویریں اور مسلم لیگ کے جھنڈے اُٹھائے ہوئے تھے اور نعرے لگارہے تھے ’’نواز شریف قدم بڑھاؤ۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ مجھے ان بیوقوفوں پر ہنسی آئی کہ نواز شریف تو جیل جانے کے لیے قدم بڑھارہے ہیں، یہ کہاں جائیں گے، ریلی چیونٹی کی چال سے آگے بڑھتی رہی، راستے میں پولیس سے جھڑپیں بھی ہوتی رہیں، ریلی دھرم پورہ کے پل پر پہنچی تو میرا حوصلہ جواب دے گیا۔ میں نے گاڑی روک لی اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے مائیک پر لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ لوگ گھر واپس چلے جائیں اور 25 جولائی کو پولنگ اسٹیشنوں پر ہمارے حق میں فیصلہ دیں۔ میرے خطاب کے بعد لوگ منتشر ہوگئے۔ حمزہ بھی ساتھ بیٹھا تھا اس نے بھی ہاتھ ہلا کر لوگوں کو الوداع کہا۔ حمزہ کا اندازہ تھا کہ ریلی میں دس ہزار لوگ شریک تھے۔ ان حالات میں دس ہزار بھی دس لاکھ کے برابر ہیں۔ میں سمجھتا ہوں بھائی جان کی شرط پوری ہوگئی البتہ ریلی کے ائرپورٹ نہ جانے کا مجھے افسوس رہے گا۔