سوشل میڈیا پر غیرمناسب زبان سے سیاست دان پریشان

223

سوشل میڈیا پر غیر مناسب زبان کے استعمال سے سیاست دان پریشان ہیں اور پیپلز پارٹی سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کے دس رہنماوَں نے ایف آئی سے شکایت کرتے ہوئے معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

سینیٹر رحمان ملک کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں بتایا گیا کہ شکایت کرنے والوں میں شہلا رضا، طلحٰہ محمود اورصدر الدین شاہ راشدی، صادق عمرانی، طارق محمود، فرحین مغل اور عائشہ گلالئی بھی شامل ہیں۔

ایف آئی اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ عدالت سے اجازت کے بعد کیس سوشل میڈیا سائٹس کو بھیجتے ہیں، ان سوشل میڈیا سائٹس کو بند کرنے کے لیے سفارش کمیٹی کرے گی۔

کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رحمان ملک نے ہدایت کی کہ ایف آئی اے سوشل سائٹس پر لوگوں کی شکایات کے لیے اکاؤنٹ بنائے، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس نگرانی کے لیے کوئی خودکار نظام نہیں۔

اجلاس میں فورٹ عباس میں تین بچیوں کی ہلاکتوں کا معاملہ بھی اٹھایا گیا، سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کو بچیوں کی ہلاکت کاعلم نہیں تھا، ہلاکت سے پہلے بچیوں پر جنسی تشدد ہوا تھا جس کی متعلقہ ڈاکٹرز نے بھی تصدیق کی تھی۔

چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ بچیوں کے والدین کو 25 لاکھ روپے کیسے ادا کیے گئے، انہوں نے پنجاب پولیس کو جواب دینے کے لیے مشاورت کا وقت دے دیا۔

سینیٹ کی کمیٹی برائے داخلہ نے چولستان میں 3 بچیوں کے جاں بحق ہونے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب پولیس کلیم امام کو طلب کررکھا تھا لیکن پنجاب پولیس کی طرف سے ایس ایس پی انویسٹی گیشن راولپنڈی پیش ہوئے، انہوں نے بتایا کہ بچیاں 13 جون کو گم ہوئیں جبکہ پولیس کو اطلاع 14 جون کو دی گئی تھی۔

رحمان ملک نے اعتراض کیا کہ آپ چولستان کی بریفنگ کیسے دے سکتے ہیں، آئی جی پنجاب کلیم امام اور متعلقہ ڈی پی او اگلے اجلاس میں رپورٹ سمیت پیش ہوں اور کمیٹی کو بریفنگ دیں۔

12 جون 2018 کو جنوبی پنجاب کے صحرائے چولستان میں تین کمسن بچیاں شدید گرمی اور ریت کے طوفان میں تین دن تک بھوک اور پیاس کی حالت میں بھٹکنے کے بعد زندگی کی بازی ہارگئی تھیں، ان کی المناک موت کا پتہ تین روز بعد چلا ، بچیوں کی تلاش میں مبینہ طور پر مقامی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے روایتی غفلت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔

نو سالہ فریحہ، آٹھ سالہ طاہرہ اور پانچ سالہ اللہ مافی اپنے خالو نصیر احمد کے گھر جا رہی تھیں کہ راستہ بھٹک گئیں، لواحقین نے پہلے دن اپنے طور پر بچیوں کو تلاش کیا اور دوسرے دن انتظامیہ کو اطلاع دی مگر کامیابی نہ ہوئی، تاہم 15 جون کو بچیوں کی میتیں ملیں۔

اپنی موت کے وقت بچیوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے ہوئے تھے جسے دیکھ کر ہر شخص رو دیا اور ہر آنکھ اشکبار ہو گئی تھی۔

تینوں بچیاں خانیوال اڈہ چھب کلاں کے غریب کسان نصیر احمد کی بیٹیاں تھیں اور جنوبی پنجاب کی تحصیل فورٹ عباس کے تپتے صحرا میں کھیتی باڑی اور مزدوری کرتی تھیں۔