ملک میں عام انتخابات کے لیے اب چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے شفاف اور منصفانہ ہونے کی اطلاعات کے ساتھ سیاست پر غالب پارٹیوں کی طرف سے ہمیشہ سے کچھ زیادہ ہی ’’پری پول دھاندلی‘‘ کی بازگشت تیز ہورہی ہے۔ خصوصی طور دھاندلی ہونے کے خدشات ان جماعتوں کی جانب سے زیادہ سامنے آرہے ہیں جن کی شکست کے امکان واضح ہوچکے ہیں۔
مسلم لیگ نواز کو نواز شریف کی واپسی کے باوجود 2018 میں سیاست ہی سے واپسی کے خدشات کھائے جارہے ہیں تو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی اپنے سیاسی مستقبل سے کچھ زیادہ مطمئن نظر نہیں آرہے، نتیجے میں دونوں ہی جماعتیں اب ایک ایسا ’’میثاق جمہوریت‘‘ سامنے لانا چاہتی ہیں جس سے ان کی پارٹیوں سے زیادہ ان کے رہنماؤں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے سیاسی مستقبل کی ضمانت مل سکے۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار دو جمہوری ادوار اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے باوجود جمہوریت کے چمپینوں کو پھر کیوں ’’نئے میثاق جمہوریت‘‘ کی ضرورت پڑی۔ اس لیے کہ دونوں ہی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز اپنے ادوار حکومت میں بے نظیر بھٹو کی تجویز پر طے کیے گئے چارٹر آف ڈیموکریکریسی کو بھلا بیٹھی تھیں۔۔۔ کیوں؟ اقتدار کے نشے میں یا پھر اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے۔۔۔؟
شاید یہی وجہ ہے کہ بلاول زرداری کو اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی تجویز پر تیار کیے گئے میثاق جمہوریت کی یاد آئی۔ مقتول و سابق وزیر اعظم نظیر بھٹو نے چارٹر آف ڈیموکریسی کے نام سے ایک مفاہمتی معاہدہ کی تجویز اس لیے دی تھی کہ ملک میں بار بار فوجی مداخلت ہوا کرتی تھی۔ 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف کے اچانک اقتدار سنبھالنے سے پیدا ہونے والی صورتحال کو سامنے رکھ کر انہوں نے سی او ڈی کی تجویز دی جس پر 14 مئی 2006 کو پیپلز پارٹی مسلم لیگ نواز سمیت دیگر جماعتوں نے دستخط کیے مگر 2007 میں جب عام انتخابات سے قبل بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا اور پھر پیدا ہونے والی افراتفری میں ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی تو چارٹر آف ڈیموکریسی کو بھلا دیا گیا۔
بلاول زرداری کو تو شاید یہ یاد بھی نہیں ہوگا کہ ان کی 8 سال کی عمر میں ہونے والے اس معاہدے پر ان کے کن کن انکلز نے دستخط کیے تھے اور یہ کن حالات کی وجہ سے سامنے لایا گیا تھا۔ یہ معاہدہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز سمیت نصف درجن پارٹیوں کے سربراہان نے دستخط کیے تھے۔ اس معاہدہ کی اہم شقوں میں یہ بھی سفارش کی گئی کہ ملک کے دفاعی بجٹ کو منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔ معاہدے میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ آئندہ وہ کسی فوجی حکومت میں نہ تو شامل ہوں گی اور نہ ہی حکومت میں آنے اور منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے فوج کی حمایت طلب کریں گی۔ چارٹر آف ڈیموکریسی میں یہ بھی سفارش کی گئی تھی ہے کہ سیاسی بنیادوں پر کام کرنے والے نیب کی جگہ ایک آزادانہ احتساب کمیشن بنایا جائے جس کے سربراہ کو وزیر اعظم قائدِ حزب اختلاف کے مشورے سے مقرر کرے۔ موجودہ قومی احتساب بیورو کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا تقرر اسی معاہدے کے تحت ہوا مگر نیب کی کارروائیوں کی وجہ سے ان دونوں پارٹیوں کے اہم رہنماؤں کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو سب کو چیئرمین نیب کیا پورا احتساب بیورو ہی بُرا لگنے لگا۔ ایسے میں بلاول زرداری نے نئے میثاق جمہوریت کا شوشا چھوڑیا جس پر مسلم لیگ نواز کی جانب سے بھی لبیک کہہ دیا گیا۔ جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ دونوں ہی بڑی جماعتیں اپنے مستقبل پر شاکی ہیں۔ وہ کسی بھی طرح انتخابات سے قبل آئندہ انتخابات کے لیے منصوبہ بندی کرنے لگیں ہیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے چند روز قبل اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم جمہوریت پسند تمام جماعتوں سے وسیع تر میثاق جمہوریت پر بات کے لیے تیار ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ میثاق جمہوریت کے حوالے سے نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ ہمارا تجربہ اچھا نہیں رہا، مسلم لیگ (ن)، نوازشریف اور شہباز شریف نے میثاق جمہوریت پر اعتماد کھویا، ہم جمہوریت پسند تمام جماعتوں سے وسیع تر میثاق جمہوریت پر بات کے لیے تیار ہیں۔ ضرورت پڑی تو پارلیمنٹ میں آنے والی تمام جمہوریت پسند جماعتوں کے اتفاق رائے کی کوشش بھی کریں گے، ہم کسی صورت بنیادی حقوق پر سمجھوتا نہیں کریں گے، نواز شریف کو جیل میں بنیادی سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں۔ اس میثاق جمہوریت کی تجویز پر (ن) لیگ نے ’’لبیک‘‘ کہہ دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان و سابق وزیرمملکت اطلاعات ونشریات کا کہنا ہے کہ جمہوری استحکام کے لیے ہر طرح کے ڈائیلاگ پر تیار ہیں، ہمارا مقصد شفاف الیکشن یقینی بنانا ہے۔ مریم اورنگزیب کا یہ بھی کہنا تھا کہ چاہتے ہیں الیکشن کی شفافیت پر سوال نہ اٹھے۔ غور کیا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے شکایتیں رکھنے کے باوجود دوبارہ قریب آنے کے لیے متفق نظر آرہی ہیں۔
چارٹر آف ڈیموکریسی کی جمہوریت کے رواں دواں رہنے کے باوجود انہیں کیوں ضرورت پڑھ رہی ہے۔ اس کا جواب شاید یہ دونوں جماعتیں بھی باآسانی نہیں دیں پائیں گی لیکن صاف ظاہر ہے کہ ان کے لیے آنے والی جمہوری حکومت بھی کسی مارشل لا یا فوجی حکومت سے کم نہیں ہوگی اس وجہ سے اب انہیں اپنی جماعتوں کو اصل جمہوری پارٹیاں کہلوانے کے لیے کسی بھی طرح ایک دوسرے کے قریب آکر اور ساتھ مل کر آگے نظر آنے والے خدشات سے نمٹنے کی تیاری کرنی ہے۔ جو انہوں نے میثاق جمہوریت کی باتوں اور یادوں سے شروع کردیں ہیں۔