شاہی قیدیوں کے شکوے

262

پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین کامرن مرتضیٰ سے اڈیالہ جیل کے شاہی قیدیوں سے ملاقات کے بعد ان کی حالت زار کا بڑا درد ناک نقشہ کھینچا ہے۔ اگلے دن پرویز رشید نے بھی اس نقشے میں رنگ بھرا ہے۔ سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ کمرہ بدبودار ہے، نواز شریف نے شکایت کی ہے کہ گھر سے آنے والا کھانا ان تک پہنچانے میں اتنی دیر کر دی جاتی ہے کہ اس میں سے بو آنے لگتی ہے۔ نواز شریف اور مریم صفدر جیل میں ملنے والی سہولتوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان دونوں کو دور دور رکھا گیا ہے اور آپس میں ملنے بھی نہیں دیا جارہا ہے۔ مریم صفدر نے بتایا کہ اتوار کو جیل بھیجنے کے بعد آج ( جمعرات) ان کا اپنے والد سے رابطہ ہوا ہے۔ پاکستان بار کے معزز عہدیدار کا مران مرتضیٰ نے احتجاج کیا ہے کہ کسی کو بدبودار کمرے میں رکھنا ذہنی اذیت دینے کے مترادف ہے اور کسی بھی مہذب معاشرے میں کسی کو بدبودار کمرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ کامران مرتضیٰ نے یقیناًتمام جیلوں یا کم از کم اڈیالہ جیل کے ہر کمرے ، بیرک اور کوٹھڑی کا جائزہ ضرور لیا ہوگاکہ کس کس کے کمرے میں بدبو نہیں ہے۔ لیکن پنجاب پر 10سال حکومت کرنے والوں نے کبھی اپنی سلطنت میں واقع جیلوں کا معائنہ بھی کیا اور دیکھا کہ قیدی کس حال میں ہیں ۔ جہاں تک کمرے میں بدبو کا تعلق ہے تو میاں نواز شریف اپنے گھر سے ’’ائرفریشنر‘‘ منگوا کر فضا کو معطر کرلیں۔ شکوہ ہے کہ پہلی رات نواز شریف کو فرش پر سونا پڑا۔ دیگر قیدی تو یقیناًمسہریوں پر استراحت فرماتے ہوں گے۔ لیکن فرش پر سونے میں قباحت کیا ہے۔ میاں صاحب جس کے امتی ہیں وہ تو ہمیشہ فرش ہی پر سوئے اور ڈاکٹر بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ فرش پر یا کسی سخت جگہ پر سونا بہتر ہے۔ میاں صاحب کو مشقتی ملا ہوا ہے جس کا کام کھانا پکانا بھی ہے۔ اس سے تازہ کھانا بنوا لیا کریں ۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ باپ ، بیٹی کو ملنے نہیں دیا جاتا۔ عینی شاہدین کے مطابق دونوں ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور اکٹھے چہل قدمی کرتے ہیں۔ بدبو دور کرنے کے لیے کمروں کی دھلائی کی فرمایش کی گئی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ’’ شاہی مہمانوں‘‘ کی آمد سے پہلے کیوں نہ ہوا؟ گزشتہ جمعرات کو نوازشریف کے خاندان کے 17افراد نے ملاقات کی ہے۔ ذر ا معلوم تو کریں کہ دیگر قیدیوں کے کتنے ملاقاتی اور کن مراحل سے گزر کر مل سکے۔ وہاں تو رات کو پیر پھیلا کر سونے کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ میاں صاحب اور بیٹی داماد کو شاید اب تک پتا نہیں چلا کہ وہ جیل میں ہیں۔ اصولاً تو ان کے ساتھ بھی عام قیدیوں جیسا سلوک ہونا چاہیے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ سہالہ ریسٹ ہاؤس میں منتقلی کی صورت میں وہاں کئی ڈاکٹروں اور نرسوں کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ ایسی ’’غیرمعمولی‘‘ تکالیف سے بچانے کے لیے جاتی عمرا کو سب جیل قرار دے کر ان شاہی قیدیوں کو کیوں نہ وہیں منتقل کردیا جائے۔ شاید اس دوسرے تجربے کے بعد اب شریف خاندان یا کوئی اور حکمران جیلوں کے سدھار پر توجہ دے اور کم از کم جیل میں تو سب سے مساوی سلوک کی جائے۔