بابا الف کے قلم سے

413

میرے مالک! میں ایک گناہگار آدمی ہوں۔ مجھے دین کا زیادہ علم نہیں ہے۔ جب موقع ملتا ہے قرآن پڑھ لیتا ہوں۔ پانچ چھ سورتیں زبانی یاد ہیں۔ لیکن ان کے مفہوم کا علم نہیں۔ میرے مالک میں پانچوں وقت کی نماز ادا کرنا چاہتا ہوں لیکن فجر کی نماز ہی میرے لیے مسئلہ بن جاتی ہے۔ آج کل گرمیاں ہیں۔ فجر کی نماز ساڑھے پانچ بجے ہورہی ہے۔ رات کو ایک ڈیڑھ بجے سونا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی دو بج جاتے ہیں۔ اب تین ساڑھے تین گھنٹے بعد نیند سے کیسے بیدار ہوا جاسکتا ہے۔ سردیوں میں نماز دیر سے ہوتی ہے لیکن گرم لحاف سے نکل کر ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔ آفس کی تیاری کے وقت سوچتا ہوں قضا نماز پڑھ لوں لیکن دیر اتنی ہورہی ہوتی ہے کہ قضا پڑھنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن میرے مالک آپ جانتے ہیں جمعہ کی نماز میں پابندی سے پڑھتا ہوں۔ اس میں البتہ یہ کوتاہی ضرور ہوجاتی ہے کہ میں خطبہ شروع ہونے سے دوچار منٹ پہلے ہی مسجد پہنچتا ہوں۔ لیکن یہ دوچار منٹ بھی بہت پروبلمز پیدا کردیتے ہیں۔ مولوی صاحب کی تقریر سنتا ہوں تو مجھے لگتا ہے وہ آج بھی تلوار پکڑ کر لڑنا چاہتے ہیں۔ انہیں پتا ہی نہیں دنیا کتنی بدل گئی ہے۔ لیکن میرے مالک مولوی صاحب کی نصیحتیں اور باتیں میرے دل کو لگتی بہت ہیں۔ دل کانپ کر رہ جاتا ہے۔ رورو کر گناہوں کی معافی مانگنے کو دل چاہتا ہے۔ پچھلے جمعہ انہوں نے پائینچے ٹخنے سے نیچے رکھنے پر سخت وعیدیں سنائیں۔ میں لرز کر رہ گیا۔ لیکن میرے مالک میں کیا کروں جو مذہب کی تعبیر کرتے ہیں وہ مجھے پائینچے ٹخنے سے اوپر رکھنے کا کہتے ہیں اور جو طرز زندگی کی تعبیر کرتے ہیں وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اسی طرح میرے مالک میں ڈاڑھی بھی رکھنا چاہتا ہوں لیکن دوچار دن شیو نہ کروں تو باس بگڑجاتا ہے۔ ’’یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے مسٹر شریف کیا شیو کرانے کے پیسے نہیں ہے اگر ایسا ہے تو مجھ سے پیسے لے لیں اور شیو کراکر آئیں ہری اَپ۔‘‘ اب میرے مالک آپ ہی بتائیں میں کیا کروں۔ باس کا حکم نہ مانوں تو کھڑے کھڑے نوکری سے نکال دے گا۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ان کا کیا بنے گا۔ پھر آج کل نوکری ملتی کہاں ہے۔ یہ نوکری بھی کتنی سفارشوں اور رشوت کے بعد ملی تھی۔ لیکن میرے مالک میرا وعدہ ہے رٹائرمنٹ کے بعد ڈاڑھی ضرور رکھ لوں گا۔ ان شاء اللہ۔ باس کہتا ہے مسلمانوں کو جب کوئی کام نہیں کرنا ہوتا ہے تو ان شاء اللہ کہتے ہیں لیکن آپ میرے دل کا حال اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسی طرح اے میرے مالک میں سچ بولنا چاہتا ہوں۔ مجھے جھوٹ سے نفرت ہے۔ لیکن جب میں دیکھتا ہوں سیاست جھوٹ پر چل رہی ہے، معیشت جھوٹ پر چل رہی ہے، حکومت جھوٹ پر چل رہی ہے، عدالت جھوٹ پر چل رہی ہے، تو پھر مجھے بھی جھوٹ بولنے میں ہی عافیت نظر آتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ کی اس کشمکش میں ہمیں مکمل طور پر جھوٹ کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ ہم بین بین بھی نہیں رہ سکتے۔ ورنہ ہمارا حال اس شخص جیسا ہوجائے گا جس کی دو بیویاں تھیں۔ ایک اس کی ہم عمر ادھیڑ عمر کی تھی اور دوسری نوجوان اور نہایت خوبصورت۔ وہ ادھیڑ عمر بیوی کے پاس جاتا تو وہ اس کے سفید بالوں کو دیکھ کر کہتی سفید بالوں کی بھی اپنی شان ہے۔ بزرگی اور احترام کی علامت۔ کاش سارے بال سفید ہوجائیں۔ یہ کہہ کر وہ دو چار کالے بال توڑ دیتی۔ وہ جوان اور خوبصورت بیوی کے پاس جاتا تو وہ کہتی ان سفید بالوں سے بالکل بڈھے دکھائی دیتے ہو مجھے شرم آتی ہے۔ یہ کہہ کر دوچار سفید بال نوچ دیتی۔ تھوڑے دن میں وہ شخص گنجا ہوگیا۔ لیکن میرے مالک جھوٹ کی اس رفاقت نے مجھے تھکا دیا ہے۔ پتا ہی نہیں چلا کب بال سفید ہوگئے۔
مری حیات میرے ساتھ کیوں بسر نہ ہوئی
سفید بال ہوئے اور مجھے خبر نہ ہوئی
میرے مالک ایک زمانہ تھا کہ تنخواہ عزت کا معیار سمجھی جاتی تھی۔ جس کی جتنی تنخواہ اتنا ہی صاحب عزت۔ اکبر الہ آبادی نے بھی کہا تھا:
نہیں یہ پوچھتے کہ الفت اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں کہ تیری تنخواہ کتنی ہے
یہ پچھلے وقتوں کی باتیں ہیں۔ اب تنخواہ کی اہمیت نہیں۔ اصل اہمیت اوپر کی آمدنی کی ہے۔
میرے عادل خدا
میری دنیا میں طبقوں کا اندھیر ہے
اور تیری دنیا میں مستقل دیر ہے
اس دیر کی تلافی ہم اوپر کی آمدنی سے کرنے پر مجبور ہیں اگر یہ اوپر کی آمدنی نہ ہو تو میرے مالک میرے بچے اچھے اسکولوں میں پڑھنے سے بھی محروم رہ جائیں گے۔ انہیں پیلے اسکولوں میں پڑھنا پڑے گا اور انہیں مستقبل میں میرے ساتھی افسروں کی اولادوں کے دفتروں میں چپڑاسی کی نوکری بھی نہیں ملے گی۔ ہر باپ چاہتا ہے کہ اس کے بچے زندگی میں ترقی کریں۔ معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کریں یہ سب کچھ اعلی انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم سے ہی ممکن ہے جن کی فیسیں اوپر کی آمدنی کے بغیر ادا کرنا ممکن نہیں۔ میرے مالک میرے بچے اگر ان اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو یہ معاشرہ انہیں روندتا ہوا گزر جائے گا۔ انہیں ہر لمحے قتل ہونا پڑے گا۔ وہ ان ذلتوں کے مارے لوگوں میں شامل ہوں گے جنہیں عدالتوں، تھانوں، کچہریوں اور اسپتالوں میں دھتکارا جاتا ہے۔ جو ایڑیاں رگڑ کر جینے پر مجبور ہیں۔ میرے مالک میں بلبن نہیں ہوں جس نے اپنے بیٹے شہزادہ محمد کو وحشی تاتاریوں کے مقابل کردیا تھا۔
میرے مالک اوپر کی آمدنی نہ ہو تو مجھے اور میرے بچوں کو بھی ویگنوں، بسوں میں لٹک کر یا چھت پر سفر کرنا پڑے یا حد سے حد موٹر سائیکل پر۔ آپ کی رضا کے لیے میں یہ مصیبت بھی مول لے لوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بچے کاروں میں سفر کے عادی ہوگئے ہیں ایسا نہیں ہے کہ کاروں میں سفر کرتے ہوئے ہم آپ کو بھول جاتے ہیں۔ نہیں ہر گز نہیں۔ میں جب بھی رشوت کی آمدنی سے نئی گاڑی خریدتا ہوں سب سے پہلے اس میں سورۃ یاسین کی تختی لٹکاتا ہوں۔ میرے مالک میں چاہتا ہوں کہ حلال طریقے سے روزی کماؤں کبھی کبھی یہ احساس اتنی شدت پکڑتا ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ آئندہ صرف حلال کے پیسوں پر انحصار کروں گا۔ لیکن میرے مالک نیچے سے اوپر تک کلرک سے لے کر اعلیٰ افسران تک ہم سب ایک Unholy Alliance کا حصہ ہیں۔ میں اس الائنس سے باہر نکلنے کی کوشش کروں گا تو میرا وہ حشر ہوگا کہ عبرت کی مثال بن جاؤں گا۔
میرے مالک پاکستان کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ یہ ملک تیزی سے نیچے کی طرف جارہا ہے۔ جہد اللبقا کا تقاضا ہے کہ اس پُرخطر صورت حال سے نمٹنے کی تیاری رکھی جائے۔ اس لیے میں کچھ پیسا باہر بھیجتا رہتا ہوں۔ بیرون ملک تھوڑی بہت جائداد بھی بنالی ہے۔ میرے مالک میرے طبقے کے لوگوں کو مٹی سے نہیں اس سازگار ماحول سے الفت ہے جو تحفظ اور عزت نفس کی ضمانت دے سکے۔ میرے مالک آخر میں یہ عرض کرنا ہے کہ چاروں طرف بہت اندھیرا ہے۔ روشنی کہیں نہیں۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا تھا:
بھلے دناں دی گل اے قبراں روشن سن
ہن تے گھر دے وچ وی دیوا بلدا نئیں
میرے مالک اس سسٹم میں روشنی درآنے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ سسٹم اتنا بوسیدہ اور متعفن ہوچکا ہے کہ اب اسے اصلاح کی نہیں تدفین کی ضرورت ہے۔ کوئی ایسا بھیج جو نہ خود حیلے کرتا ہو اور نہ ہم جیسوں کا حیلہ قبول کرے۔ جو اس نظام کا خاتمہ کرسکے۔ لیکن میرے مالک اس سے پہلے میرے اور میرے بیوی بچوں کا باہر جانے کا بندوبست ضرور کردینا۔