بے یقینی کی کیفیت 

184

انتخابات میں دو چار روز باقی ہیں لیکن بے یقینی کی کیفیت ہر طرف پھیلی ہوئی ہے، یہ بے یقینی پہلے تو خود انتخابات کے بروقت منعقد ہونے کے حوالے سے ہے، میرے خیال میں بدھ 25جولائی کی شام کو جب انتخابات ہو چکے ہوں گے تب شاید یقین آجائے کہ ہاں ملک میں انتخابات ہو گئے۔ ایک اخبار میں آج ہی اس موضوع پر اداریہ لکھا گیا ہے کہ 108انتخابی عذرداریاں اپنے فیصلے کی منتظر ہیں اس صورت حال میں خدشہ ہے کہ انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں اس لیے کہ جب تک فیصلے نہیں ہو جاتے ان امیدواروں کے نام بیلٹ پیپر پر شائع نہیں ہو سکتے اگر دو تین دن میں فیصلے ہو بھی جائیں تو الیکشن کمیشن کے لیے نئے بیلٹ پیپر کی اشاعت آسان نہیں ہوگی جس سے بہت سے امیدوار الیکشن میں حصہ لینا تو کجا اپنی مہم بھی ٹھیک سے نہیں چلا سکتے۔ چار حلقوں کے انتخابات امیدواروں کی رحلت کے باعث پہلے ہی ملتوی ہو چکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن ان حلقوں کے انتخابات بھی روکنے کا اعلان کردے جن کے معاملات عدالتوں میں چل رہے ہیں، اگر ایسا ہو گیا تو کئی حلقوں کے انتخابات ملتوی ہو جانے کی وجہ سے پچیس جولائی کا انتخاب بھی مشکوک ہو جائے گا شاید یہ کسی منصوبہ بندی کا حصہ ہو۔
بے یقینی کی کیفیت ایک اور حوالے سے بھی ہے کہ ابھی تک ملک میں انتخابات کا ماحول نہیں بن پا رہا ہے۔ ملک کی چار بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف، ن لیگ، پی پی پی اور متحدہ مجلس عمل بھی ان شبہات کا اظہار کررہی ہیں کہ انتخابات وقت پر شاید نہ ہو سکیں لیکن ایک بے یقینی خود ان جماعتوں کو اپنی کامیابیوں کے حوالے سے ہے کہ ویسے تو ایک تاثر یہ بنایا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کامیاب ہوگی اور عمران خان ملک کے آئندہ وزیر اعظم ہوں گے لیکن خود اس پارٹی کے لیڈران اپنی کامیابی کے دعوے کرنے کے باوجود اندر سے ایک انجانے خوف کا شکار ہیں کہ کہیں ان کے ساتھ اس دفع بھی کوئی ہاتھ نہ ہو جائے اور بلا جیپ کے نیچے نہ آجائے
اسی طرح ن لیگ والے تو ابھی سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ملک میں شفاف انتخابات نہ ہوئے تو حالات خراب ہو سکتے ہیں ان کے نزدیک شفاف انتخابات کا مطلب ن لیگ کی فتح ہے اس لیے وہ بھی یقین کی حد تک بے یقینی کا شکار ہیں کہ کیا آئندہ شہباز شریف صاحب وزیر اعظم بن بھی سکیں گے یا نہیں۔ آصف زرداری صاحب یہ کہتے ہیں کہ وہ بلاول کو وزیر اعظم دیکھنے کے خواہش مند ہیں پھر جواب میں بلاول صاحب فرماتے ہیں کہ آئندہ وزیر اعظم آصف زرداری ہو ں گے۔ لیکن ان دعووں کے باوجود یہ دونوں باپ بیٹے بھی اپنی جماعت کی کامیابی کے حوالے بے یقینی کا شکار ہیں۔
متحدہ مجلس عمل کا معاملہ بھی 2002 کی طرح کا نہیں ہے اس وقت شاہ احمد نورانی اور قاضی حسین احمد جیسی شخصیات تھیں مولانا سمیع الحق بھی ساتھ تھے ان تینوں معززین کی وجہ سے اتحاد کے فیصلوں میں توازن قائم رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس اتحاد کی خاطر جماعت اسلامی کو خیبر پختون خوا میں بہت زیادہ قربانی دینا پڑی ہے کہ قومی کی دس اور صوبائی کی اٹھائیس نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا جب کہ جے یو آئی نے اس سے تقریباً دوگنی نشستیں لے لی ہیں دوسرا المیہ یہ ہوا کہ جہاں جماعت کے امیدوار ہیں وہاں جے یو آئی کے لوگ آزاد حیثیت میں کھڑے ہو گئے اس کے علاوہ خود جے یو آئی کی اپنی پوزیشن بھی پہلے کی طرح مضبوط نہیں ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ کراچی میں انتخابات کے حوالے سے ہے کہ ایم کیو ایم، پی ایس پی اپنے بلند بانگ دعووں کے باوجود اپنی کامیابیوں کے حوالے بے یقینی کا شکار ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کو متحدہ مجلس عمل اور تحریک لبیک پاکستان سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ اب تو عوامی سطح پر دفاتر میں مختلف جماعتوں کے کارکنان آپس میں اس طرح کا تبادلہ خیال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ایم کیو ایم کو چھ سے آٹھ قومی کی اور دس سے پندرہ صوبائی کی نشستیں دے دی جائیں گی کون دے گا کہاں سے دے گا یہ سب اوپن سیکرٹ ہے ایسا لگ رہا ہے کہ ساری انتخابی مہمات محض ایک خانہ پری ہے اسی لیے ہر غیر معروف امیدوار چاہے وہ کسی بھی تنظیم کی جانب سے ہو جیسے کہ پرویز مشرف کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ جس کا آبادی میں کوئی خاص کام نہیں لیکن ان کے امیدواران بھی بے تحاشا پیسہ خرچ کررہے کہ شاید پرویز مشرف صاحب انہیں کہیں سے سیٹ دلوادیں گے۔ اس طرح کے رجحانات ملکی سیاست میں اچھے نہیں ہوتے۔