مفتی منیب الرحمن مدظلہٗ کی بصیرت اور بصارت دونوں ہی قابل رشک ہیں۔ بصیرت اس لیے کہ مفتی ہیں جس کے لیے ڈھیروں بصیرت درکار ہوتی ہیں اور بصارت ایسی کہ آسمان میں بال سے باریک ہلال کو ڈھونڈ نکالتے ہیں اور ان کے فیصلے پر لوگ روزے رکھتے یا عیدیں مناتے ہیں۔ ان کی حیثیت ایک قاضی کی ہے چناں چہ ان کے فیصلے تسلیم کیے جانے چاہئیں۔ اب اس صاحب بصیرت و بصارت مفتی و قاضی نے فیصلہ دیا ہے کہ ’’عمران خان کا ظرف چھلک رہا ہے، ایک مدبر رہنما ہیں جو متانت اور وقار ہونا چاہیے، وہ انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا۔ ایک ذمے دار قومی رہنما کو یہ لب و لہجہ زیب نہیں دیتا کہ نواز شریف کے استقبال کے لیے جانے والوں اور گدھوں میں کوئی فرق نہیں۔ جو ان کو لینے ائر پورٹ جائیں گے وہ انسان کہلانے کے قابل نہیں‘‘۔
مفتی صاحب کے اس فتوے سے کامل اتفاق ہے لیکن اختلاف کی گنجائش بھی رکھنی چاہیے۔ انہوں نے عمران خان کو ’’ذمے دار قومی رہنما‘‘ سمجھتے ہوئے ان سے متانت اور وقار کی توقع باندھ لی تھی جب کہ عمران خان ابھی تک کھیل کے میدان سے باہر نہیں نکلے۔ امپائر انہیں کھلائے چلا جارہا ہے تو وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ تو ایک پلے بوائے تھے۔ اس کے اثرات زائل نہیں ہوئے گو کہ وہ اب بوائے نہیں رہے، پھر بھی پلے کررہے ہیں۔ چمن کے پتے پتے پر لکھی ہے داستان میری، کے مصداق ان کے کارنامے اور کارناموں کے نقوش کئی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بھارت کی خواتین میں بھی وہ مقبول تھے۔ معروف گاڈریج کمپنی کے مالک کے گھر میں اکثر ڈیرے ڈالے رہتے تھے اور امریکن بچی ٹیریان تو اپنے باپ کی شفقتوں سے محروم ہی رہی۔ یہ داستانیں تو قصہ پارینہ ہوگئی تھیں لیکن ان کی دوسری جائز منکوحہ جو جلد ہی سابق ہوگئیں، ریحام خان نے اپنی کتاب میں کئی تازہ انکشافات کیے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو نوک قلم اور نوک زباں پر نہیں لائے جاسکتے۔
عمران خان وزیراعظم بنیں گے یا نہیں لیکن مفتی صاحب کا فیصلہ ہے کہ ان کا ظرف چھلک رہا ہے۔ بات تو چھلکنے سے آگے بڑھ گئی یعنی ’’جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے‘‘۔ اور صدائیں بھی کیسی۔ پنجاب کے عوام کو گدھا کہنے پر نوٹس ملا تو ان کے وکیل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ عمران خان آئندہ کسی کو گدھا نہیں کہیں گے۔ یعنی اب کسی اور حیوان کا انتخاب کیا جائے گا۔ گھوڑے تو انہوں نے اپنے اصطبل میں جمع کرلیے ہیں اور کتے گھر میں اچھلتے پھر رہے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ جس گھر میں کتے ہوں اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ لیکن کسی قسم کے ’’فرشتے‘‘ بنی گالا کے اطراف گھوم رہے ہیں جنہیں نواز شریف نادیدہ قوت کہتے ہیں۔
عمران خان کے معتمد ساتھی اور سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے تو تہذیب و شرافت کی ساری حدیں پار کرلیں اور اپنے جلسے میں پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہرانے والے کو طوائف کا بچہ اور کنجر قرار دے دیا۔ کسی نے تبصرہ کیا ہے کہ پرویز خٹک بھی کبھی پیپلز پارٹی کے شیدا تھے اور ان کے گھر پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہراتا تھا۔ یہ گالی تو انہی پر پلٹ کر آتی ہے۔ رہا کنجر کا لفظ تو اردو، پنجابی، پشتو میں یہ گالی ضرور ہے لیکن یہ اتنا برا لفظ بھی نہیں۔ سید میر تقی میر کا شعر ہے:
میر صاحب اس طرح سے آتے ہیں
جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں
انہوں نے اپنے آپ کو کنجر کہہ دیا اور اصل کنجر خانہ بدوش کو کہتے ہیں۔ لیکن سیاست میں بے شمار خانہ بدوش ہیں جو اپنا سیاسی خانہ کندھے پر لیے پھرتے ہیں اور آج کل ان کا رخ بنی گالا کی طرف ہے۔