عالمی سطح پر تجارتی جنگ کے آثار

201

6 جولائی 2018ء کا دن عالمی معیشت میں بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے کہ اس دن امریکا نے چین سے آنے والی 34 ارب ڈالر کی درآمدات پر 25 فی صد ٹیکس عاید کردیا۔ یوں تو امریکا اور چین کے درمیان تجارتی تنازعات میں پچھلے سال سے مسلسل اضافہ ہورہا تھا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین کی تجارتی پالیسیوں اور کاروباری سرگرمیوں پر وقتاً فوقتاً طرح طرح کے الزامات لگاتے رہے تھے ساتھ ہی ساتھ اپنے ملک کی تجارت، صنعت اور زراعت کو محفوظ بنانے کا اعلان بھی کرتے رہے اور ان کے اس رویے کے باعث امریکا کے پرانے اتحادی اور دوست مثلاً یورپی یونین، کینیڈا، آسٹریلیا بھی خوش نہیں ہیں۔ مثلاً اپنی صنعتوں کو محفوظ بنانے کا جواز بنا کر اپریل میں یورپی یونین اور کینیڈا سے آنے والی ایلومینیم اور اسٹیل کی مصنوعات پر ٹیکس عاید کردیا، اس کے جواب میں یورپی یونین نے بھی 2.8 ملین یورو مالیت کی امریکا سے آنے والی درآمدات پر ٹیکس لگادیا۔امریکا نے 34 ارب ڈالر کی جن چینی مصنوعات پر 25 فی صد ٹیکس لگایا ہے ان میں مشینری اور سیمی کنڈکٹر کے مختلف پرزے شامل ہیں اور اس کا جواز یہ بتایا کہ چین کے ساتھ تجارتی خسارہ امریکا کا بڑھتا جارہا ہے۔ چین کی تجارتی پالیسیاں قطعی ناموزوں ہیں اور ہم اپنے صنعتی شعبے کو محفوظ بنانے کے لیے اور کاروبار سے متعلق ٹریڈ مارک اور مخصوص ملکیتوں (propety rights) کے تحفظ کے لیے یہ اقدام اٹھارہے ہیں۔ اس کے جواب میں چین نے صرف چند گھنٹوں کے بعد مساوی مالیت کی امریکی درآمدات پر 25 فی صد ٹیکس لگادیا، امریکی درآمدات میں سویا بین، آٹو موبائل، واشنگ مشین اور سولر پینل شامل ہیں۔
عالمی معیشت کے ماہرین امریکا اور چین کے جوابی اقدام کو تجارتی جنگ سے تعبیر کررہے ہیں اور دور رس نتائج کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کے نتیجے میں عالمی معیشت کساد بازاری کا شکار ہوجائے گی لیکن امریکی صدر کو اس کی پروا نہیں ہے وہ اس تجارتی جنگ کو بڑھانے کے لیے پَرتول رہے ہیں اور انہوں نے چین کو دھمکی دی ہے کہ وہ چین سے آنے والی مزید 200 ارب ڈالر کی درآمدات پر 10 فی صد ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف چین نے بھی جوابی اقدام کا اعلان کردیا ہے۔ امریکا کا یہ اقدام نیا نہیں 1930ء میں بھی امریکا کے ایک قانون کے ذریعے بیس ہزار درآمدی اشیا پر ٹیکس لگادیا تھا اور اس وقت کے تقریباً امریکا میں رہنے والے ایک ہزار ماہرین معیشت نے مل کر امریکی صدر سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس قانون کو ویٹو کردیا جائے یہ ایک بہت بڑی حماقت ہے، آٹو موبائل کی دنیا کے ماہر ہنری فورڈ نے بھی امریکی صدر کو مختلف دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن امریکی صدر نے یہ قانون نافذ کردیا۔ اس کے نتیجے میں امریکی معیشت سخت بحران کا شکار ہوئی جسے عظیم کساد بازاری Great Depression کہا جاتا ہے اور امریکا کی 25 فی صد افرادی قوت بے روزگاری کا شکار ہوئی۔ چناں چہ 1932ء میں اس قانون کو بدلنا پڑا۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ امریکا میں قائم بے شمار معاشی ریسرچ کے ادارے، تجزیہ کار اور پروفیسر اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ عالمی تجارت آزادانہ ہونی چاہیے۔ مختلف ممالک کے درمیان درآمدات و برآمدات کی ترسیل و تقسیم بغیر ملکی رکاوٹ کے اور بغیر ملکی ٹیکس کے ہونا چاہیے اور اسی طرح امریکا کے کاروباری وفود اور سرکاری نمائندے دنیا کے دوسرے ممالک سے درآمدات پر ٹیکس کم کرنے کی بات کرتے ہیں جب کہ امریکی حکومت اِن عالمی قواعد اور ضوابط کے علی الرغم اقدامات کررہی ہے۔ اس طرح دنیا میں عالمی تجارت کو آزادانہ بنانے، اصول و قواعد وضع کرنے اور مختلف ممالک کی تجارتی پالیسیوں پر نظر رکھنے کے لیے ایک ادارہ قائم ہے جسے عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کہا جاتا ہے جس نے اس سلسلے میں مختلف قوانین بنائے ہیں۔ مثلاً کوئی ملک اس طرح بغیر کسی ٹھوس جواز کے کسی دوسرے ملک کی درآمدات پر ٹیکس نہیں لگا سکتا اور اگر کرگزرے تو دوسرا ملک اس کی شکایت عالمی تجارتی تنظیم کی عدالت میں کیس لے کر جائے گا۔ اور وہاں اس کی شکایت سنی جائے گی اور متاثرہ ملک یک طرفہ طور پر کوئی قدم نہیں اُٹھا سکتا۔ لیکن آج کل امریکا دوسرے تمام ممالک سے آنے والی درآمدات پر مزید ٹیکس لگانے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور دوسرے ممالک بھی جوابی اقدام کررہے ہیں۔ چناں چہ وہ عالمی تجارتی تنظیم جو ان ممالک نے خود بنائی تھی وہ اپنے منصوبوں اور پالیسیوں میں اسے خاطر میں نہیں لاتے۔ جہاں تک امریکا کا تعلق ہے وہ تمام عالمی تنظیموں کو صرف اس وقت وزن دیتا ہے جب اس کا مفاد ہو، ورنہ انہیں حقارت سے رد کردیتا ہے اس نے اقوام متحدہ کو ٹھکرا کر عراق پر حملہ کردیا۔ اسی طرح بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اسرائیل کے معاملے میں اس کی ظلم و درندگی کو دیکھ کر جو موقف اختیار کرتی ہیں اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا، اسی طرح بین الاقوامی تجارت میں عالمی تجارتی تنظیم کی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔