چور کی ڈاڑھی میں تنکا اور سرسید کی ڈاڑھی میں سیکولرازم

392

اردو کا ایک پرانا محاورہ ہے۔ چور کی ڈاڑھی میں تنکا۔ اردو کا نیا محاورہ ہے چور کی ڈاڑھی میں تنکا سرسید کی ڈاڑھی میں سیکولرازم۔ یہ محاورہ پڑھ کر وحشت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں خیالی پلاؤ پکانے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہم وہی کہتے ہیں جو ہوتا ہے۔ تو کیا سرسید سیکولر بھی ہیں؟ جی ہاں۔ صرف سیکولر نہیں۔ راسخ العقیدہ سیکولر۔ ان کی ڈاڑھی نہ ہوتی تو ان کا سیکولرازم کب کا ڈاڑھی ڈیڑھ سو سال سے ایک پردے کا کام کررہی ہے۔ کوئی اس پردے کو ہٹا کر دیکھتا تو چیخ کر کہتا۔ ارے سرسید تو کارل مارکس سے زیادہ سیکولر ہیں۔ آپ نے کارل مارکس کا نام تو سنا ہی ہوگا۔ مارکس سائنٹیفک سوشلزم کا بانی ہے۔ اس کے نظریات نے روس میں انقلاب برپا کیا اور یہ انقلاب دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا پر چھا گیا اور 70 سال تک چھایا رہا۔ کارل مارکس کے سیکولر ازم کا معاملہ یہ ہے کہ مارکس خدا کا منکر تھا۔ رسالت کا منکر تھا۔ ولی کا منکر تھا۔ یہاں تک کہ وہ مذہب کو عوام کی افیون کہتا تھا۔ مگر اس کے باوجود مارکس نے کہا ہے کہ فلسفیوں نے دنیا کی تعبیر و تشریح کی ہے۔ لیکن مسئلہ دنیا کی تشریح و تعبیر کا نہیں، مسئلہ دنیا کو بدلنے کا ہے۔ مطلب یہ کہ جو فلسفہ دنیا کو نہ بدل سکے وہ بیکار ہے۔ خیالی پلاؤ ہے۔ مارکس کی پوری فکر سیکولر ازم میں ڈوبی ہوئی ہے مگر اس کا یہ خیال اپنی نہاد میں مذہبی ہے کہ فلسفے کو دنیا بدلنے والی قوت ہونا چاہیے۔ زندگی اور دنیا کو بدلنا مذہب کا ازلی و ابدی فریضہ ہے۔ بالخصوص اسلام کا۔ جو شخص، گروہ، تنظیم یا طبقہ اسلام کو دنیا بدلنے والی حقیقت نہیں سمجھتا۔ وہ یا تو جاہل مطلق ہے یا روحانی زنخا یا پھر سیکولر۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس بات کا سرسید سے کیا تعلق ہے؟
جدید سیکولر ازم دین اور دنیا کی تفریق کا قائل ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دین کا دائرہ الگ ہے اور دنیا کا دائرہ الگ۔ چناں چہ دین کو دنیا سے لاتعلق ہونا چاہیے اور دنیا کو دین سے۔ جدید محاورے میں اس کو یوں بھی کہا جاتا ہے کہ دین انفرادی معاملہ ہے اور اس کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔ کوئی ذاتی زندگی کے دائرے میں خدا کو مانتا ہے تو مانے۔ مذہب کا قاتل ہے تو ہوا کرے ریاست کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں۔ ریاست مذہبی معاملات سے لاتعلق ہے یا اسے مذہبی امور کے سلسلے میں غیر جانب دار ہونا چاہیے۔ اب آپ دین اور دنیا کے باہمی تعلق کے حوالے سے سرسید کے ’’عظیم خیالات‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
(1) ’’دنیا میں دو قسم کے امور ہیں، ایک روحانی دوسرے جسمانی یا یوں کہو ایک دینی اور دوسرے دنیاوی۔ سچا مذہب امور دنیاوی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا‘‘۔
اب اس سلسلے میں سرسید کا دوسرا بیان پڑھیے۔ لکھتے ہیں۔
(2) انسان کی بدبختی کی جڑ دنیاوی مسائل کو دینی مسائل میں، جو ناقابل تغیر و تبدیل ہیں، شامل کرلینا ہے۔
سرسید نے تیسری جگہ فرمایا:
(3) ’’لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ان امور معاشرت کو جو عمدہ ہوں بطور مذہبی مسائل کے مذہب میں شامل کرلینا ان کے دوامی استحکام اور دوامی عمل درآمد کا باعث ہوتا ہے‘‘۔
اس ضمن میں سرسید کا چوتھا بیان یہ ہے۔
(4) ’’دنیاوی امور کا قرآن مجید میں ذکر ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ دنیاوی معاملات بھی مذہب میں داخل ہیں‘‘۔
(افکار سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری صفحہ163)
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مارکس جیسا سیکولر مفکر فلسفیوں اور فلسفے کو یہ عزت بخش رہا ہے کہ اسے صرف دنیا کی تشریح و تعبیر کرنے والا نہیں ہونا چاہیے بلکہ فلسفیوں اور فلسفے کو دنیا بدلنے والا ہونا چاہیے مگر سرسید کی نظر میں اسلام، قرآن مجید، رسول اکرمؐ اور آپؐ کی سیرت طیبہؐ معاذ اللہ اتنی حقیر ہے کہ اسے دنیا سے لاتعلق ہونا چاہیے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے کسی فلسفی نے آج تک یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ دنیا کو بدلنے آیا ہے۔ اس کے برعکس ہر نبی دنیا ہی کو بدلنے کے لیے معبوث کیا گیا۔ بالخصوص قرآن مجید فرقان حمید تو ہے ہی کتاب انقلاب۔ اس نسبت سے رسول اکرمؐ کو بجا طور پر پیغمبر انقلاب کہا گیا ہے۔ اس لیے کہ آپؐ نے دنیا کو بدلا کسی اور نے اس طرح دنیا کو تبدیل نہیں کیا۔ سرسید نے دین اور دنیا کی علیحدگی کے حوالے سے جو چاربیانات دیے ہیں وہ ہر اعتبار سے ہولناک ہیں۔
سرسید نے اپنے پہلے بیان میں فرمایا ہے کہ دنیا میں دو قسم کے امور ہیں۔ ایک روحانی، دوسرے جسمانی یا یوں کہو ایک دینی اور دوسرے دنیاوی۔ سچا مذہب امور دنیاوی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ سرسید مذہبی انسان نہیں تھے مگر وہ بہرحال خود کو مذہبی انسان سمجھتے تھے۔ چناں چہ انہیں اپنے اس دعوے کے حق میں کوئی مذہبی دلیل دینی چاہیے تھی۔ قرآن مجید سے نہ سہی وہ توریت اور انجیل ہی سے کوئی ’’سند‘‘ لا کر دکھاتے۔ سرسید ’’عقل‘‘ کے بڑے قاتل تھے چناں چہ انہیں اس ضمن میں کوئی عقلی دلیل تو ضرور ہی مہیا کرنی چاہیے تھی مگر انہوں نے نہ مذہبی یا نقلی دلیل دی، نہ عقلی دلیل مہیا کی۔ سرسید اتنا بڑا دعویٰ لے کر کھڑے ہوئے ہیں مگر ان کا انداز یہ ہے کہ میں نے کہہ دیا تا کہ مذہب اور دنیا کا کوئی تعلق نہیں۔ بس میرے کہے پر ایمان لاؤ۔ عجیب بات ہے۔ مسلمان قرآن و حدیث، سیرت طیبہؐ اور اجماع پر ایمان نہ لائیں، البتہ ایک فرد یعنی سرسید پر ایمان لے آئیں۔ غور کیا جائے تو قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہوجاؤ۔ یعنی اپنے دل دماغ، اپنے حواس، اپنی جبلتوں غرضیکہ پورے وجود کو ذہن کے حوالے کردو۔ اسی طرح اپنی سیاسی و سماجی، علمی و تمدنی زندگی کو بھی دین کے ماتحت کرو۔ یہاں تک کہ قومی اور بین الاقوامی زندگی کو بھی دین کے تابع کرو۔ مسلمانوں کے لیے یہ باتیں ’’خیال آرائی‘‘ نہیں۔ رسول اکرمؐ نے عملاً یہی کیا۔ آپؐ نے زندگی کے ہر دائرے کو دین کے رنگ میں رنگ دیا۔ ریاست سرسید کی نظر میں ’’دنیاوی چیز‘‘ ہے مگر رسول اکرمؐ نے ریاست مدینہ قائم کی تو اسے دین کے مطابق پھیلایا۔ جنگ لڑی تو دین کے اصولوں کے تحت لڑی۔ معیشت استوار کی تو اسے دینی احکامات کا پابند کیا۔ یہاں تک کہ اسلام میں تجارت اور کھانے پینے کے معاملات بھی دین کے تابع ہوتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے مخصوص تعلق جو جسمانی حقیقت ہیں انہیں بھی دین کے اصولوں کا پابند کرکے ایک روحانی سرگرمی بنادیا۔ مگر سرسید کو دین الگ نظر آتا تھا اور دنیا الگ۔ روح الگ دکھائی دیتی تھی اور جسم الگ۔ یہاں تک کہ اگر اسلام دین اور دنیا کی یکجائی کی بات کرے تو معاذ اللہ وہ جھوٹا مذہب ہے۔
سرسید نے دین و دنیا سے متعلق اپنے بیان میں دین و دنیا کی یکجائی کو ’’بدبختی‘‘ قرار دے دیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو معاذ اللہ تمام انبیا و مرسلین نے بدبختی کی باتیں کیں بلکہ بدبختی کو عمل میں ڈھالا۔ امام غزالیؒ دین اور دنیا کی یکجائی اور دنیا پر دین کے غلبے کے قائل تھے، چناں چہ سرسید کی نظر میں امام غزالی بھی بدبختی کا کام کرنے والے تھے۔ ابن خلدون بھی ایسے ہی تھے۔ مجدد الف ثانی کا بھی یہی معاملہ تھا۔ شاہ ولی اللہ بھی اسی عارضے میں مبتلا تھے۔ اقبال کا قصہ بھی یہی تھا اور مولانا مودودی نے بھی دنیا کو دین کے تابع کرکے سرسید کی نظر میں بدبختی کا کام کیا۔ اللہ اکبر۔
سرسید کے تیسرے بیان کو غور سے پڑھیے۔ اس بیان میں سرسید نے ’’معاشرت‘‘ کو ’’مذہب‘‘ سے زیادہ ’’امیر‘‘ بنادیا ہے۔ سرسید کا کہنا ہے کہ جو لوگ عمدہ معاشرتی اصولوں کو مذہب میں شامل کرتے ہیں تو ان کے اس فعل کی پشت پر یہ خیال ہوتا ہے کہ عمدہ معاشرتی اصول مذہبی رنگ اختیار کرکے ’’پائیدار‘‘ ہوجائیں۔ سرسید کے اس بیان کا مطلب ہے کہ معاشرت مذہب سے استفادہ نہیں کرتی بلکہ مذہب معاشرت سے عمدہ خیالات کی بھیک مانگتا ہے۔ حالاں کہ ہمارے مذہب، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ کسی انسان یا کسی معاشرے میں جو خوبی ہے وہ یقیناًمذہب سے آئی ہوگی۔
سرسید نے اپنے چوتھے بیان میں حد ہی کردی۔ فرمایا کہ قرآن میں دنیاوی امور کے ذکر کی موجودگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ معاملات مذہب کا حصہ ہیں۔ یعنی معاذ اللہ خدا نے اگر قرآن مجید میں سود کو اللہ اور رسول سے جنگ قرار دیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاشرے کو سود سے پاک ہونا چاہیے۔ یا اگر خدا نے آیات جہاد نازل فرمائی ہیں تو ان کا مفہوم یہ نہیں مسلمان جنگ کے عمل کو کوئی مذہبی فعل یا روحانی عمل سمجھنے لگیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سرسید نے معاذ اللہ خدا پر یہ الزام لگادیا ہے کہ خدا کو فضول گوئی کی عادت ہے۔ چناں چہ قرآن میں اس نے ایسی باتیں بھی کہہ دی ہیں جن کا دنیا اور اس کے کاموں سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا خدا اور قرآن مجید پر اس سے بڑا کوئی حملہ ہوسکتا ہے۔ یعنی ایسے شخص کا حملہ جو بظاہر کہتا ہو کہ میں خدا اور قرآن پر ایمان رکھتا ہوں۔ اب آپ کو معلوم ہوا کہ چور کی ڈاڑھی میں تنکا اور سرسید کی ڈاڑھی میں سیکولر ازم کا کیا مطلب ہے؟ ہم نے سرسید کے حوالے سے لکھے گئے اپنے ایک کالم میں بھارت کے نوبل انعام یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کے حوالے سے مشہور ایک واقعہ لکھا تھا۔ واقعے کے مطابق رابندر ناتھ ٹیگور کو اپنی کتاب ’’گیتا نجلی‘‘ پر ادب کا نوبل انعام ملا تو مغرب میں ٹیگور کی روحانیت کا بڑا چرچا ہوا۔ کہتے ہیں کہ اس چرچے سے متاثر ہو کر انگریزی کا عظیم ڈراما نگار برنارڈ شاٹیگور سے ملنے بھارت آیا۔ وہ ٹیگور سے مل کر واپس جارہا تھا تو کسی صحافی نے شاعر سے پوچھا۔ آپ کو گرو دیو یعنی ٹیگور کیسے لگے؟ سوال سن کر شاکی بے مثال ذہانت اور wit نے زور مارا۔ شا نے کہا۔
shave him he is fool یعنی ٹیگور کی ساری روحانیت، عظمت اور علم اس کی ڈاڑھی میں ہے۔ ڈاڑھی کاٹ دی جائے گی تو اصل ٹیگور سامنے آجائے گا۔ شا نے سرسید کو پڑھا ہوتا اور کوئی اس سے سرسید کے بارے میں پوچھتا تو بلاشبہ شا کہتا۔ shave him he is secular۔ گزشتہ کالم میں یہ بات ایک دعویٰ تھی۔ آج کے کالم میں یہ بات حقیقت بن چکی ہے۔