اندھا اور اندھا دھند انصاف

327

ایک بارپھر یہ ہوا ہے کہ 7سال کی قید کاٹنے کے بعد عدالت عظمیٰ نے تین افراد کی رہائی کا حکم دیا ہے گو کہ ان کو شک کا فائدہ ملا ہے۔وہ 7سال جو قید میں کٹ گئے ان کا حساب کون دے گا اور کون لے گا۔ یہ تو غنیمت ہے کہ رہائی 7سال بعد ہی عمل میں آگئی ورنہ تو ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک شخص جب پھانسی پا گیا اور زندگی کی قید سے رہا ہوگیا تو اس کی رہائی کا پروانہ جاری ہوا اور فیصلہ دیا گیا کہ وہ جو عدالتی نظام کی بھینٹ چڑ گیا وہ تو بے گناہ تھا۔ اس پر تو پولیس، تفتیشی اداروں، وکلا استغاثہ اور ان تمام ججوں کو کم از کم عمر قید کی سزا تو ہو ہی جانی چاہیے تھی جنہوں نے مل کر ایک بے گناہ شخص کو پھانسی کے تختے تک پہنچایا۔ جب تک غلط تفتیش، جانبداری اور غلط فیصلوں کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں نہیں ملیں گی یہ احمقانہ بلکہ ظالمانہ حرکتیں ہوتی رہیں گی۔ کہیں نہ کہیں کوئی بنیادی خرابی ضرورہے۔ عدالت عظمیٰ نے مذکورہ تین افراد کی رہائی کاحکم دیتے ہوئے عدالت عالیہ کی قانونی دانش پر بھی سوال اٹھایا ہے کہ جس جرم کی زیادہ سے زیادہ 10سال ہے اس میں 14سال کی سزا کیسے دے دی گئی۔ عدالت عالیہ اور اس کے فیصلے بہت اہم ہوتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ماتحت عدالت کے فیصلے ہی کو آنکھ بند کر کے آگے بڑھا دیا گیا۔ عدالت عظمیٰ کے معزز جج کا یہ تبصرہ بھی اہم ہے کہ انصاف اندھا ضرور ہوتا ہے، اندھا دھند نہیں ہوتا۔ لیکن انصاف اندھا ہی کیوں؟ فیصلے تو آنکھیں کھول کر کیے جانے چاہییں تاہم اسے اندھا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اپنے پرائے، طاقت وراور بے کس میں امتیاز نہیں رکھتا اور صرف قانون اور ثبوتوں کو مد نظر رکھتا ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ چیف جسٹس پاکستان اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ نظام عدل کو درست کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یعنی خرابیاں بدستور ہیں۔ اس کے باوجود عوام عدلیہ ہی پر بھروسا کرنے پر مجبور ہیں اور جب عدلیہ بھی عدل نہ کرسکے یا برسوں کی تاخیر ہو تو عوام کہاں جائیں۔ یہ لطیفہ بہت مقبول ہے کہ وکیل کے بجائے جج کرلیا ہے۔ قانون میں ایک عجیب شق ’’ شک کا فائدہ‘‘ ہے۔ یعنی رہائی مشکوک رہتی ہے۔ اب یا تو کوئی شخص گناہ گار ہے یا بے گناہ۔ فیصلہ دو ٹوک ہونا چاہیے۔ انصاف میں شک کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن شایدیہ انگریز کا قانون ہے۔