سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے (صحابۂ کرام سے) دریافت کیا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟، صحابہ کرام نے عرض کیا: ہم مفلس اُسے سمجھتے ہیں جس کے پاس دنیاوی مال ومتاع نہ ہو، آپ ؐ نے فرمایا: میری امت میں درحقیقت مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ (اس کے نامۂ اعمال میں) نمازیں، روزے اور زکوٰۃ (یعنی عبادات) تو ہوں گی، لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر ناجائز تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا، کسی کو مارا پیٹا ہوگا، تو ان تمام حق داروں کو (اُن کے حقوق کی تلافی کے لیے) اُس کی نیکیاں منتقل کی جائیں گی، پھر جب نیکیاں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ذمے حقوق (بدستور) باقی رہیں گے، تو اُن (حق داروں) کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے، پھر اسے جہنَّم میں جھونک دیا جائے گا، (مسلم)‘‘۔ آج کل ہمارے وطنِ عزیز میں قومی انتخابات کی مہم اپنے آخری مراحل میں جاری وساری ہے اور ان انتخابات کے بعد پتا چلے گا کہ انتخابات کے نتیجے میں قوم کے حالات میں پہلے سے بہتری آتی ہے یا حالات حسبِ سابق جاری وساری رہتے ہیں یا اُس سے بھی بدتر ہوجاتے ہیں، اس کا علم اللہ کے پاس ہے، ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات سے بہتری کی امید رکھنی چاہیے اور اسی کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ لیکن اس انتخابی مہم نے سرِدست قوم کوجو تحفہ دیا ہے، وہ سیاسی قائدین کی اخلاقی گراوٹ کا ہے جو افسوسناک ہے۔ عربی کا مقولہ ہے: ’’لوگ اپنے بادشاہوں (یا حکمرانوں) کی روش کو اپناتے ہیں‘‘، سو ہمارے مستقبل کے حکمران قوم کو بداخلاقی کا جو تحفہ دے چکے ہیں، اس کے مظاہر سوشل میڈیا پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
ہمارے سیاست دانوں کو صرف تعریف پسند ہے، تنقید انہیں ناپسند ہوتی ہے، حالاں کہ منہ پر تعریف ہلاکت کا باعث ہے، رسول اللہ ؐ نے فرمایا: (1) ’’جب تم (منہ پر) تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو اُن کے چہروں پر مٹی ڈال دو، (مسلم)‘‘۔ (2) ابو معمر بیان کرتے ہیں: ’’ایک شخص کھڑا ہوا اور حاکمِ وقت کی تعریف کرنے لگا تو مقداد نے اس کے چہرے پر مٹی ڈال دی اور کہا: رسول اللہ ؐ نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم خوشامدیوں کے چہروں پر مٹی ڈالیں، (مسلم)‘‘۔ اس کی شرح میں امام یحییٰ بن شرف نووی نے لکھا: ’’سیدنا مقداد نے اس حدیث کو ظاہری معنی پر محمول کیا اور بعض دیگر محدثین نے بھی اسے ظاہری معنی میں لیا ہے اور وہ خوشامدیوں کے چہروں پر فی الواقع مٹی ڈالتے تھے اور دوسرے محدثین نے فرمایا: اس کا معنی یہ ہے کہ ایسے خوشامدیوں کو نامراد کرو، انہیں تعریف پر تھپکی نہ دو اور جب تمہاری تعریف کی جائے تو یاد رکھو کہ تم مٹی سے ہو، سو تواضع کرو اور اِتراؤ نہیں (کیوں کہ مٹی کی خاصیت عَجز اور اِنکسار ہے)‘‘۔
خوشامدی لوگ مخلص اور خیرخواہ کا روپ اختیار کر تے ہیں، لیکن درحقیقت وہ بدخواہ اور مطلب پرست ہوتے ہیں، جو انسان کے دل ودماغ میں حقائق کا سامنا کرنے کی اہلیت کو سَلب کرلیتے ہیں، جب کہ رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے: ’’دین خیر خواہی کا نام ہے، صحابۂ کرام نے عرض کیا: (یارسول اللہ!) کس کی خیرخواہی، آپ ؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ، اُس کی کتابِ مقدّس، اُس کے رسولِ مکرّم ؐ، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کی خیرخواہی (دین) ہے، (مسلم)‘‘۔ اللہ تعالیٰ، قرآنِ کریم اور رسول اللہ ؐ کی خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ ان کے احکام پر عمل کیا جائے اور اس کا فائدہ خود عمل کرنے والے کو ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ، اس کی کتاب، اس کے رسول مکرّمؐ کی شان تو ویسے ہی بلند ہے، وہ ہماری کسی تعریف یا خیرخواہی کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ ہم سب اُن کے محتاج ہیں۔
مُحَدِّثینِ کرام نے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بیان کیے گئے چند کلمات کو نہایت جامع قرار دیا ہے، اُن میں نصیحت (خیرخواہی)، فلاح اور عافیت کے کلمات شامل ہیں، یہ پورے دین پر محیط ہیں۔
انس بن مالک بیان کرتے ہیں: ایک شخص بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا اور پوچھا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم!) افضل دعا کون سی ہے؟، آپ ؐ نے فرمایا: اپنے ربّ سے عافیت اور دنیا اور آخرت کی سلامتی مانگو، پھر وہی شخص دوسرے دن آیا اور یہی سوال کیا، آپ ؐ نے پھر یہی جواب دیا، پھر وہی شخص تیسرے دن آیا اور یہی سوال کیا،آپ ؐ نے فرمایا: جب تمہیں دنیا اور آخرت کی عافیت عطا ہوگئی تو تم نے فلاح پالی، (سنن ترمذی)‘‘۔ اس کی شرح میں علامہ طِیْبِی نے لکھا: ’’عَفو، عافیت اور مُعافات کے معانی تقریباً ایک جیسے ہیں: عفو کے معنی ہیں: ’’گناہوں کا مٹ جانا‘‘ اور عافیت کے معنی بیماریوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہنا ہے، اس کے معنی صحت وعافیت کے بھی ہیں‘‘ اور معافات کے معنی ہیں: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں لوگوں کے شر سے اور لوگوں کو تمہارے شر سے محفوظ رکھے، لوگوں کو تمہاری اذیت سے اور تمہیں لوگوں کی اذیت سے اپنی پناہ میں رکھے‘‘۔ وہ لوگ جو ایک دوسرے کو لَعن طَعن کرتے ہیں، اُن کی بابت رسول اللہ ؐ نے فرمایا: بے شک بندہ جب کسی پر لعنت کرتا ہے، تو وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے اور اس پر آسمان کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، پھر وہ زمین کی طرف اترتی ہے تو اس پر زمین کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، پھر وہ دائیں بائیں رخ کرتی ہے، پھر جب اُسے کوئی ٹھکانا نہیں ملتا تو یہ اُس کی طرف لوٹ آتی ہے جو اس لعنت کا حق دار ہے، ورنہ لعنت کرنے والے پرواپس نازل ہوتی ہے، (ابوداؤد)‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ عدل اور احسان اور رشتے داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع فرماتا ہے، وہ تم کو نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو، (النحل: 90)‘‘۔ سفیان بن عیینہ نے کہا: ’’عدل یہ ہے کہ بندے کا ظاہر وباطن یکساں ہو اور احسان یہ ہے کہ بندے کا باطن اُس کے ظاہر سے بھی زیادہ پاکیزہ ہو‘‘۔ امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا: ’’عدل کے معنی ہیں انصاف کرنا اور احسان کے معنی ہیں: فضل وکرم کا برتاؤ کرنا‘‘۔ مفسرین کرام نے فرمایا: ’’عدل یہ ہے کہ اپنا حق پورا لو اور دوسرے کو اُس کا حق پورا دو اور احسان یہ ہے کہ خود اپنے حق سے کم لو یا مکمل ایثار کرو اور دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دو‘‘۔ ہر قبیح فعل کو ’’فَحشاء‘‘ کہتے ہیں اور قباحت کے اعتبار سے اس کے مختلف درجات ہیں، چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی برائی کو ’’مُنکَر‘‘ کہتے ہیں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ ؐ کے غالی دشمن ولید بن مغیرہ کی سماعت سے ٹکرائی، تو اس نے کہا: ’’اے بھتیجے! اسے دوبارہ پڑھو، بخدا اس میں بڑی مٹھاس ہے، اس کا ظاہر بڑا دلکش ہے، اس کا تنا برگ وبار والا ہے، اس کی شاخیں پھولوں اور پھلوں سے لدی ہیں اور یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہے‘‘۔ یہ آیۂ مبارکہ قرآنِ کریم کی جامع ترین آیات میں سے ہے، جو خیر وشر کے تمام شعبہ جات پر محیط ہے اور اسی لیے اسے بالعموم ہر خطبے میں پڑھا جاتا ہے، کاش کہ اس کے نورانی وروحانی اثرات کو ہم قبول کریں اور اپنے دل ودماغ میں اس طرح جذب کریں کہ ہمارے دل ایمان وایقان سے معمور ہوجائیں اور ہم اعمالِ حسنہ کے برگ وبار اور پھلوں اور پھولوں سے مزین ہوجائیں۔ اس وقت تو منظر یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی تذلیل سے لطف اٹھاتے ہیں، توہین سے لذت پاتے ہیں اور دوسروں کی بے توقیری کو اپنے وقار کی علامت سمجھتے ہیں۔ کاش کہ بندے کو سمجھ میں آجائے کہ عزت وذلت اُس کے اختیار میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے اللہ! ملک (واقتدار) کے مالکِ (حقیقی)، تو جسے چاہتا ہے، سلطنت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلطنت چھین لیتا ہے، تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے، سب بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے اور تو ہرچیز پر قادر ہے، (آل عمران: 25)‘‘۔
الیکشن کمیشن اور نگراں حکومتوں پر بھی جانب داری کے الزامات لگ رہے ہیں، جو مثبت علامت نہیں ہے، اگر آنے والے انتخابات حقیقی معنی میں منصفانہ اور شفاف نہ ہوئے، تو خدانخواستہ ملک انتشار اور عدمِ استحکام کی طرف جاسکتا ہے اور موجودہ حالات میں ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے، کیوں کہ ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں ہے، زرِ مبادلہ کے ذخائر روز بروز کم ہورہے ہیں، پاکستانی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں روزانہ کے اعتبار سے اپنی قیمت کھو رہی ہے، اس کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان بھی آسکتا ہے، میڈیا نے بتایا کہ نگراں حکومت آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینے جارہی ہے۔ درآمدات وبرآمدات کا تناسب دو اور پانچ کا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں جو اقتدار کی دوڑ میں ایک دوسرے کی حریف ہیں، اُن کے منشور محض لفاظی ہیں، پرکشش اور خوش کن وعدے ہیں، ملک کو درپیش مشکلات کا عملی حل کسی نے پیش نہیں کیا۔ سرِدست رائے دہندگان کو بہلانے کا عمل جاری ہے، حقیقت پسندی کے دور دور تک آثار نظر نہیں آرہے۔ وہ قوتیں جن پر منصوبہ بندی کا الزام لگایا جارہا ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ اُن کے پاس بھی حالات کی اصلاح کا کوئی عملی خاکہ ہے یا نہیں، بگاڑ آسان ہے، سدھار بہت مشکل ہے۔ یہ تو سب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ دینی جماعتوں کو میڈیا پر اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا، بلکہ بلیک آؤٹ ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی ہے یا اس کا سبب لبرل میڈیا کی اپنی عصبیت ہے یا یہ صرف پیسے کا کھیل ہے، کیوں کہ ہمارے ملک میں انتخابات میں حصہ لینا بہت مہنگا کھیل ہے اور صرف اہلِ ثروت اس کا شوق پال سکتے ہیں یا وہ جن کے پیچھے کوئی باوسائل طاقت موجود ہے۔ سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر یہ عیاں ہوگیا کہ پچیس تیس ارب روپے میں سینیٹ کا کنٹرول حاصل کیا جاسکتا ہے۔ سو جب سب کچھ قابلِ فروخت ہو تو کوئی طاقت قومی اسمبلی کی قیمت کا کوئی تخمینہ لگا کر بازی لگا سکتی ہے۔