پھر وعدوں کی سبیل

177

پاکستان پیپلز پارٹی کے نو خیز رہنما بلاول زرداری نے سندھ میں بھرپور انتخابی مہم چلائی ہے اور لیاری میں پہلا جھٹکا سہنے کے بعد انہوں نے اندرون سندھ ایسے علاقوں کا انتخاب کیا جو روایتی طور پر پیپلز پارٹی کے حلقے سمجھے جاتے ہیں اور پیپلز پارٹی نے بار بار اقتدار میں آنے کے باوجود ان علاقوں کو نظر انداز کیے رکھا پھر بھی ووٹ پیپلز پارٹی ہی کو ملتا رہا ہے۔ اس بار اندرون سندھ نسبتاً بیداری پائی جاتی ہے اور لوگ پیپلزپارٹی کے امیدواروں سے حساب مانگنے لگے ہیں کہ ان کے لیے اب تک کیا کیا گیا۔ کچھ نہ کرنے کے باوجود ایک بار پھر وعدوں کی سبیل لگا دی گئی ہے اور سنہرے خوابوں کا جمعہ بازار لگ گیا ہے۔ 1970ء میں لگایا گیا روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کبھی پورا تو نہیں ہوا پھربھی اس بار بھوک مٹاؤکا نعرہ لگ رہا ہے۔ سندھ میں متعدد جامعات اور اسپتالوں کا ذکر کیا جارہاہے لیکن ان کا وجود کہاں ہے، یہ ایک راز ہے۔ نئی جامعات تو کجا اسکولوں کی حالت بھی ابتر ہے۔ جو اسپتال ہیں وہاں نہ دوائیں ہیں نہ عملہ ہے۔ اسکولوں کو گھوسٹ اسکول کہا جاتاہے جو صرف کاغذوں پر ہیں۔ سندھ پر پیپلز پارٹی کی 10سالہ حکومت میں ہزاروں ایسے اساتذہ بھرتی کیے گئے جو نہ معیار پر پورے اترتے ہیں اور نہ وہ حاضر ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وزراء تعلیم نے خوب خوب ہاتھ رنگے۔ یہ بھی یادگار ہے کہ پیپلزپارٹی کے وزیر جیل خانہ جات مظفر علی شجرہ نے روٹی، کپڑا مکان کے مطالبے پر فرمایا تھا کہ جیلیں موجود ہیں، یہاں آجائیں تو روٹی کپڑا مکان سب مفت ملے گا۔ پیپلز پارٹی میں ایسے شجر بہت سے ہیں۔ فریال تالپور ، بلاول زرداری کی پھوپھی ہیں اور ان کی شہرت سے سب واقف ہیں۔ اندرون سندھ ان ہی کی حکومت ہے۔ عدالت نے انہیں اور بلاول کے والد آصف زرداری کو مفرور قرار دے رکھا ہے تاہم فریال تالپور نے حاضر ہو کر 6دن کی ضمانت حاصل کرلی ہے۔ آصف زرداری تو اتنی بڑی شخصیت ہیں کہ انہوں نے پیش ہونے کی زحمت ہی نہیں کی۔ کوئی اور اگر پیش نہ ہو تو اس پر طنز کیا جاتا ہے۔ آصف زرداری کے بہت گہرے دوست اورگھر کے بھیدی سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا نے الزام لگایا ہے کہ آصف زرداری نے 14افراد کو قتل کرایا۔ وہ دشمنی میں اتنا آگے بڑھ گئے کراچی کی عدالت میں میرے سیکورٹی گارڈ پر تشدد کرایا اور میرے فارم ہاؤس پر چڑھائی کروائی۔ آصف زرداری نے الطاف حسین سے مل کر کراچی میں زمینوں پر قبضے کیے۔ ممکن ہے یہ جلے دل کے پھپھولے ہوں لیکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے بلاول پر لازم ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کروائیں خواہ ان کی زد میں ان کے والد اور پھوپھیاں آتی ہوں۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ بلاول کی اپنی پرورش بھی تو زرداری کی کمائی سے ہوئی ہے ورنہ وہ بہت پہلے پوچھ چکے ہوتے کہ دادا تو کوئی بڑی جائداد چھوڑ کر نہیں گئے تھے پھر آج وہ ایک کھرب پتی کے بیٹے کیسے بن گئے۔ ان کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ نظریات اور اصولوں کی سیاست کررہے ہیں ۔ لیکن کون سے نظریات اور کیسے اصول۔ پیپلز پارٹی کے اپنے ہی اصول اور نظریات ہیں۔ بھٹو سے لے کر بلاول تک۔ لیکن اس بار سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، پیپلز پارٹی کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ جس نے اور کچھ نہ سہی، اندرو ن سندھ بیداری تو پیدا کی۔