کل یوم احتساب ہے

194

انتخابات کو سبو تاژ کرنے اور خوف و ہراس پھیلانے کا سلسلہ تھما نہیں ہے۔ گزشتہ اتوار کو ڈیرہ اسماعیل خان میں واردات ہوگئی اور اس میں بھی پی ٹی آئی کے امیدوار اکرام اللہ گنڈا پور اور ان کے تین ساتھی جاں بحق ہوگئے۔سابق صوبائی وزیر اکرام اللہ پی کے 99- سے تحریک انصاف کے امیدوارتھے۔ وہ اپنے بھائی کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کے خلاف احتجاج میں شرکت کے لیے گھر سے نکلے ہی تھے کہ ان کی گاڑی کو بارودی مواد سے اڑا دیا گیا۔ اکرام اللہ کے بھائی اقرار اللہ گنڈا پور کو 5سال قبل قتل کردیا گیا تھا لیکن ان کے قاتل گرفتار نہیں ہوسکے۔ اس پر احتجاجی ریلی کا پروگرام تھا اور اکرام اللہ گنڈا پور ، کلاچی کے حلقہ سے اپنی انتخابی مہم بھی چلا رہے تھے۔ ایک خبر کے مطابق یہ خود کش حملہ تھا حملہ آور نے ان کی کار کے قریب آ کر خود کو اڑا لیا۔ مرحوم کے بھائی انعام اللہ گنڈا پور نے اپنے چھوٹے اور بڑے بھائی کے قتل کا الزام تحریک انصاف ہی کے رہنما علی امین گنڈا پور پر عاید کیا ہے۔ حقیقت کیا ہے، یہ تو تحقیقات کے بعد ہی معلوم ہوگا لیکن اقرار اللہ گنڈا پور کے قاتل تو 5سال گزر جانے کے باوجود پکڑے نہیں گئے۔ اگر اکرام اللہ گنڈا پور کے قتل کو کسی دہشت گرد تنظیم ، داعش یا طالبان پاکستان سے وابستہ کردیا گیا تو اصل قاتلوں کی نشاندہی مشکل ہوگی اور پولیس کا کام آسان ہو جائے گا، حملہ آور تو موقع پر مارا ہی گیا۔ یہ ہوسکتا ہے کہ مبینہ سازشی کسی پولیس مقابلے میں مارے جائیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے نگران وزیر اعلیٰ نے اسے خودکش دھماکا قرار دیتے ہوئے اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور ڈی آئی خان انتظامیہ سے 12گھنٹے میں جامع رپورٹ طلب کرلی ہے۔ 12گھنٹے تو کب کے گزر گئے، امید ہے کہ وزیر اعلیٰ کو جامع رپورٹ مل چکی ہوگی۔ لیکن اتنے کم وقت میں تیار کی جانے والی ’’ جامع‘‘ رپورٹ میں سوائے واقعہ کی تفصیلات کے اور کیا ہوگا۔ اگر حملہ آور کے اعضا مل گئے تو اتنی جلدی اس کی شناخت بھی نہ ہوسکے گی بشرطیکہ نادرا کے پاس اس کا ریکارڈ ہو۔ مقتولوں کے بھائی انعام اللہ گنڈا پور نے علی امین گنڈاپوراور ان کے بھائی پر کھل کر الزام عاید کیا ہے اور عمران خان کو متنبہ کیا ہے کہ ان سے دور رہیں۔ اقرار اللہ کی شہادت پر انعام اللہ نے باقاعدہ علی امین اور ان کے بھائی عمر امین گنڈا پور کو نامزد کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے انہوں نے کافی ثبوت بھی جمع کیے لیکن پولیس نے کچھ نہیں کیا۔ عمران خان نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ علی امین گنڈا پور عمران خان کے بہت قریب ہیں لیکن تحریک انصاف کے سربراہ کو انصاف سے کام لے کر تحقیقات کرانی چاہیے۔ دونوں مقتول بھائیوں کا تعلق بھی تحریک انصاف سے تھا۔ عمران خان اپنے صوبے کی پولیس کی بہت تعریف کرتے رہتے ہیں۔ امید ہے کہ پولیس غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے گی۔ اسی اثنا میں بنوں میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اکرم خان درانی پر دوسری بار قاتلانہ حملہ ہواہے ۔ پچھلے حملے میں ان کے 4 ساتھی جان بحق ہوگئے تھے۔ انکی حفاظت کے انتظامات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت تھی۔ اس بار حملہ اسنائپر گن سے ہوا یعنی حملہ آور نے دور سے نشانہ بنایا۔ اکرم درانی بلٹ پروف گاڑی میں تھے اس لیے محفوظ رہے اور گولی سامنے کے شیشے پر لگی۔ پولیس نے معمول کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔ یہ دونوں وارداتیں ایک ہی صوبے میں ہوئی ہیں۔ پشاور کے علاقے یکہّ توت کا سانحہ بھی اسی صوبے میں پیش آیا تھا۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان خاص طور پر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ دونوں صوبوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں جہاں سے دہشت گردوں کی آمدو رفت آسان ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ساری وارداتیں خوف و ہراس پھیلانے اور انتخابات میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ہیں۔ سیکورٹی کے ذمے دار اداروں سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا بے کار ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے حفاظتی اقدامات مزید سخت کردینے چاہییں۔ عام انتخابات میں اب ایک ہی دن رہ گیا ہے۔ دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ کل ہر صورت میں ووٹ ڈالنے کے لیے نکلیں، یہ ملک اور اگلی نسلوں کے مستقبل کاسوال بھی ہے۔ اب نہیں تو کبھی نہیں کا مرحلہ آگیا ہے۔ عوام کوشش کریں کہ اچھے لوگوں کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کریں خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ اچھے لوگ ہر جماعت میں ہیں چنانچہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر صاف ستھرے اور باکردار افراد کا انتخاب کریں۔ یہ بھی مدنظر رہے کہ قوم کو نیا نہیں اسلامی پاکستان چاہیے۔ بڑے بڑے دعوے کرنے والی کچھ جماعتیں اقتدار میں رہی ہیں، انہوں نے کیا کیا، اس کا حساب بھی لینا چاہیے۔ کل ان سب کا یوم احتساب ہے۔ اگر بدکردار اور بدعنوان لوگ ایک بار پھر اسمبلیوں میں پہنچ گئے تو اس قوم کے مزید 5سال ضائع ہوجائیں گے۔