سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو اڈیالہ جیل پہنچادیا گیا ہے، اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ان کی سزا قانون کے تقاضوں کے مطابق ہے یا کسی کی خواہش کی تکمیل ہے۔ وہ قانون کی گرفت میں آتے ہیں یا اللہ کی پکڑ میں۔ البتہ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ میاں نواز شریف کی مقبولیت کا تمسخر اُڑانے والے اپنی انا کی تسکین کررہے ہیں کیوں کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم جیسے مقبول رہنما کے ساتھ جو کچھ ہوا اور عوام نے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا اس کے بعد کسی رہنما کی مقبولیت کا اندازہ عوامی ردعمل سے لگانا بے معنی ہے اور اس کا عملی تجربہ میاں نواز شریف کو پہلے بھی ہوچکا ہے۔ بہرحال یہ بات طے شدہ ہے کہ ہمارے ہاں جیسا کہا جاتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کے لیے بھٹو خاندان نے بڑی قربانیاں دی ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں بلور خاندان نے دی ہیں۔
الیکشن کی بھرپور تیاریاں ہورہی ہیں اور آنے والی حکومت کے بارے میں خوش گمانیوں اور بدگمانیوں کا اظہار کیا جارہا ہے جو مبصرین اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ آنے والی حکومت عوام کی اُمنگوں اور خواہشات کے عین مطابق ہوگی، ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ واقعی خوش گمانی میں مبتلا ہیں، کیوں کہ ایسے تبصرے اور ایسی خوش گمانیاں تو ہر الیکشن کے دوران ہوتی رہتی ہیں مگر نتیجہ ہمیشہ ڈھاک کے تین پات ہی رہا ہے اور عوام تیرا، تین ہوتے رہے ہیں، جو لوگ منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچیں گے اور حکومت میں شامل ہوں گے ان کا ماضی اور ان کی کارکردگی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ انتخابی بارش کے بعد در و دیوار دھلنے کے بجائے کائی زدہ ہوجاتے ہیں اور گلی کوچوں میں کیچڑ بھر جاتا ہے۔ اس پس منظر میں سلیم احمد کا یہ شعر دیکھیے:
ہم سمجھتے تھے ہمارے بام و در دھل جائیں گے
بارشیں آئیں تو کائی جم گئی دیوار پر
اقتدار کی دیوار پر کائی کا جمنا ہماری روایت کا حصہ بن چکا ہے۔ من حیث القوم ہم روایت پرست ہیں، سونے پہ سہاگا یہ کہ ہم شخصیت پرستی کی وبا میں بھی مبتلا ہیں۔ ہم ایک مدت سے انہی کالموں میں یہ گزارش کررہے ہیں کہ ملک و قوم کی بہتری اور خوش حالی کے لیے ایک ایسی قومی حکومت تشکیل دی جائے جو دیانت دار اور قوم سے محبت کرنے والوں پر مشتمل ہو، جو تنخواہ کے بغیر قوم کی خیر خواہ ہو۔
توقع تھی کہ عام انتخابات کے موقعے پر مقتدر قوتیں ایسی پالیسی وضع کریں گی جو قوم کو کرپٹ اور ہوس زر کے کوڑھ میں مبتلا سیاست دانوں سے نجات دلانے میں اہم کردار کی حامل ہوگی مگر حالات و آثار بتارہے ہیں کہ نئی حکومت بھی گزشتہ حکومتوں کا تسلسل ہوگی۔ صرف چہرے بدل جائیں گے، نام بدلے جائیں گے، نظام حکومت اور حکمران ویسے ہی ہوں گے، ملک کو مستحکم اور قوم کو خوش کرنے کے بجائے اپنے خاندان کی خوش حالی اور اپنی جائداد میں بے پناہ اضافے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟ ملک و قوم کی فلاح وبہبود کی راہ میں حکمران طبقہ کب تک رکاوٹ بنارہے گا؟ حکومت کی تبدیلی اس وقت تک بے معنی اور لاحاصل ہے جب تک طرز حکمرانی اور نظام عدل میں تبدیلی نہیں آتی مگر یہ تبدیلی کیسے آئے گی اور کون لائے گا؟ نعرے بازی سے تو کردار کشی کی جاتی ہے اور اس معاملے میں ہم لاجواب ہیں، باکمال ہیں۔