عام انتخابات میں کراچی کے نتائج نئی تاریخ رقم کریں گے‘ تجزیہ 

348

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) امن و امان کی بہترین صورتحال کی وجہ سے کراچی میں بدھ کو عام انتخابا ووٹنگ کی شرح غیر معمولی ہونے کا امکان ہے۔ کئی سال بعد عام انتخابات کی گہما گہمی الیکشن سے ایک روز قبل بھی شہر بھر دکھادے رہی تھی۔ شہری طویل عرصے بعد کراچی میں تمام بڑی چھوٹی جماعتوں کو بلا خوف آزادانہ انتخابی مہم چلانے کے بعد اب اپنے ووٹرز کو گھروں نکالنے کے لیے بھی سرگرم نظر آرہے ہیں۔ ماضی کی طرح کسی بھی علاقے میں نہ تو فائرنگ ہوئی اور نہ ہی کسی قسم کے تصادم کی اطلاع ملی ہے۔عام انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی ہوگی کہ اس بار ایم کیو ایم کے کسی امیدواروں کو لاکھوں کیا ہزاروں کی تعداد میں بھی 15 ہزار سے زائد ووٹ ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان انتخابات میں ہر پارٹی کے کارکنوں کا جوش جذبہ بھی نمایاں ہے‘ یہ تاثر عام ہے کہ کراچی کے انتخابات اور اس کے نتائج تاریخ میں بھی ایک نیا باب ثابت ہونگے۔ یاد رہے کہ کراچی سے پہلی بار عام انتخابات میں6 جماعتوں کے سربراہ خود الیکشن لڑ رہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ،پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری ، ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ، مہاجر قومی موومنت کے آفاق احمد ، پی ایس پی کے مصطفی کمال مختلف حلقوں سے انتخابات میں حصہ لے رہیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی سے بلاول زرداری اور فاروق ستار کے علاوہ کسی سربراہ کی کامیابی کے امکانات بھی واضح نہیں ہیں۔ خیال ہے کہ انتخابی نتائج سے بیشتر پارٹیوں کو دھچکا لگے گا۔ سب سے زیادہ ایم کیو ایم پاکستان کو مایوس کن نتائج سے صدمہ پہنچنے کا امکان ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں ایم ایم اے میں شامل جماعت اسلامی کے امیدواروں کی اکثریت کا کامیاب ہونے کا امکان اس لیے ہے کہ جماعت کے ووٹ مستحکم ہے چونکہ 1984ء سے قبل عام انتخابات میں کراچی سے جماعت اسلامی اور جے یو پی کے امیدواروں کی بڑی تعداد کامیاب ہوا کرتی تھی اس لیے اب دوبارہ ووٹرز جماعت کی طرف بحیثیت پرامن اور لوگوں کی خدمت کے لیے پیش پیش ہونے والی پارٹی کی وجہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ عام انتخابات کی ملکی صورتحال کے حوالے سے خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ماضی کی طرح برتری حاصل نہیں کرسکے گی۔